سب تعریف اللہ عزوجل کے لئے ہیں
جو بلند و بالا ہے، سب خوبیوں والا ہے، پیدا کرنے والا اور لوٹانے والا ہے، اپنے ارادے کو پورا کرنے والا ہے اور کروڑوں
درود و سلام اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر، جس کا ذکر اللہ پاک نے خود بلند فرمایا۔
قومِ عاد کی
نافرمانیاں:
قرآن کریم میں ہے : ترجمۂ کنز
الایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے
آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے
ہو، اگر سچے ہو۔"( پ 8، الاعراف، 70)
قومِ عاد اپنے زمانے کی بہت
طاقتور قوم تھی اور حضرت سیّدنا آدم علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل سے اس قوم کا
تعلق تھا، یہ بت پرست، بد اعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت سیّدنا ہود علیہ
السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر
انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا۔
قومِ عاد کی آندھی:
آخرکار عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہو گئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک
سالی کا دور دورہ ہو گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کے لئے ترس گئے، ایک جماعت نے کعبہ معظمہ میں جاکر دعائیں
مانگیں، لیکن اپنے نبی کے نافرمان اورگستاخ اور بے ادب تھے، اللہ عزوجل نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک
سرخ اور ایک سیاہ اور آواز آئی کہ ایک بدلی کو پسند کر و، انہوں نے کالی بدلی کو پسند
کیا، اس خیال سے کہ اس سے خوب بارش برسے
گی، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: کہ
اے میری قوم! اللہ عزوجل کا عذاب بدلی کی صورت
میں تمھاری طرف بڑھ رہا ہے، لیکن نافرمان
قوم نے کہا: کہاں کاعذاب اور کیسا عذاب؟ایک دم اس بدلی سے ایک آندھی آئی، جس نے اس
قوم کو فنا کر دیا، اس قوم کا ایک ایک بچہ
مر کر فنا ہو گیا، جب آندھی ختم ہوئی تو اس قوم کی لاشیں اس طرح
زمین پر پڑی ہوئی تھیں، جس طرح درخت اُکھڑ
کر زمین پر پڑے ہیں، پھر اللہ پاک کی طرف
سے کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر
سمندر میں پھینک دیا۔(تفسیر الفتاوی، جلد
2، صفحہ 686، پارہ 8، الاعراف70)
درسِ ہدایت:
قران کریم کے اس دردناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ قومِ عاد جو بڑی طاقتور اور قد آور، ان کے پاس لہلہاتے کھیت، ہرے بھرے باغات، پہاڑوں کو تراش کر انہوں نے گرمی اور سردیوں کے
لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے تھے، اپنی
طاقت پر بڑا اعتماد تھا، مگر اپنے کفر ، بداعمالیوں،
بدکاریوں کی نحوست سے ان لوگوں کو قہر ِالہی
اور عذابِ الہی نے پکڑ لیا، تو بھلا ہم
جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانہ ہے کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور
اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے،
انہیں لازم ہے کہ اللہ عزوجل اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، ورنہ قرآن پاک کی آیاتِ کریمہ ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی
تاثیر بربادی۔