حضرت نوح علیہ السلام کے برسوں
بعد اللہ تعالی نے ایک قوم پیدا فرمائی،
جسے اس زمانے میں "قومِ عاد" کہا جاتا تھا، یہ لوگ صحت مند، طاقت ور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی عمر والے تھے، لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکار تھے، چنانچہ بتوں کی پوجا کرنے، لوگوں کا مذاق
اڑانا، دوسروں کو تنگ کرنا اور لمبی زندگی
کی اُمید پر مضبوط محل بنانا ان کے عام معمولات تھے۔(بحوالہ سیرت الانبیاء)
نعمتوں کی بہتات کے باوجود میں
کفر و شرک کی اور فسق و فجور کی وبا پھیلی ہوئی تھی، چنانچہ یہ لوگ توحیدِ الہی، عبادتِ خداوندی اور اطاعتِ رسول چھوڑ کر مختلف
ناموں سے موسوم اپنے ہی تراشیدہ بتوں کی پوجا میں مشغول تھے، اس کے علاوہ یہ سرِ راہ چھوٹی چھوٹی عمارتیں
بناتے، ان پر بیٹھ کر لوگوں سے چھیڑخانی
اور مذاق مسخری کرتے اور زندگی کی موج مستیوں سے لُطف اندوز ہونے کے لئے مضبوط محل
تیار کرتے تھے، ان کے طرزِ عمل سے یہ لگتا
تھا جیسے انہیں کبھی مرنا نہیں ہے، بلکہ
ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔(سیرت الانبیاء)
قو مِ عاد نے ایک موقع پر انہی الفاظ میں یہ کہہ کر بھی حضرت ہود علیہ السلام (جو کہ اس
قوم کے نبی علیہ السلام تھے) کی رسالت کا انکار کر دیا کہ اگر ہمارا ربّ کوئی رسول
بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو اُتار دیتا، چونکہ تم فرشتے نہیں ہو، اس لئے ہم تمہیں انکار کرتے ہیں، یعنی تمہاری رسالت کا انکار کرتے ہیں ، قرآن عظیم
میں ہے:
قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ
مَلٰٓىٕكَةً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:" بولے ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اُتارتا تو جو کچھ تم لے کر بھیجے گئے ہم اُسے نہیں مانتے ۔( پارہ 24، حٰم السجدہ، آیت14)
قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے سے
انکار کر کے شرک اور گناہوں پر اصرار کو
ترجیح دی۔
قومِ عاد کے بُرے
افعال، نافرمانیاں:
1۔کفر کرنا۔
2۔ بتوں کی پوجا کرنا۔
3۔ کفر و شرک اور گنا ہوں میں
اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرنا۔
4۔ گناہوں پر اصرار۔
6۔توبہ استغفار سے انکار۔
7۔سرکش و نافرمان لوگوں کو اپنا
پیشواء ماننا۔
8۔اللہ تعالی کے
9۔ نبی اور مسلمانوں کو اذیت دینا۔
10۔ان کی تحقیر کرنا اور انہیں بُرا
بھلا کہنا۔
11۔خدا کی قدرت کے مقابلے میں
اپنی طاقت و قوت پر مغرور ہونا۔
12۔لوگوں پر ظلم و ستم۔
13۔بڑی بے دردی کے ساتھ لوگوں کی
گرفت کرنا۔
14۔راہ گیروں کو ستانا۔
15۔لمبی لمبی امیدیں رکھنا۔
16۔ نعمتوں کی ناشکری کرنا، وغیرہ