اللہ ربُّ العزت ارشاد فرماتا ہے:
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا
رَبَّهُمْؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠(۶۰)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور
اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلےاور ان کے
پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن سن لو بےشک عاد اپنے رب سے منکر ہوئے
ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم۔
(پ12، ہود، 59-60)
قومِ عاد دو ہیں:
عادِ اولیٰ:حضرت ہود علیہ السلام
کی قوم ہے۔
عادِ ثانیہ:حضرت صالح علیہ السلام
کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں۔
یہاں عادِ اولیٰ مراد ہے۔
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضرِموت کے درمیان علاقہ یمن میں
ایک ریگستان ہے، یہ لوگ بت پرست تھے،
مندرجہ بالا آیت میں اِس قوم کی کچھ
نافرمانیاں بیان کی گئی ہیں۔(صراط الجنان،
ج3، ص 351)
ربّ کی آیتوں کے
منکر:
اللہ تعالی نے حضرت ہود علیہ
السلام کو مبعوث فرمایا، آپ علیہ السلام
نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت
پرستی اور ظلم وجفا کاری سے روکا، لیکن وہ
نہ مانے اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو جھٹلانے لگے۔(صراط الجنان، ج3، ص355)
نبی کی نافرمانی
اور توہین:
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم
سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ اس پر
قوم کے سردار بو لے:"ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور
تمہیں رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے۔"(صراط الجنان، ج3، ص352)
اپنے ربّ کا انکار:
یہ لوگ بت پرست تھے ، ان کے ایک
بت کا نام "صُداء" اور ایک کا" صُمُود"اور ایک
کا"ہباء" تھا، اس قوم نے سرکشی کی، حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد پھیلایا اور ستم گاریوں
میں زیادتی کی۔(صراط الجنان، ج3، ص356)
غرضیکہ اس قوم نے اپنے نبی علیہ
السلام کو اذیت پہنچائی اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ہٹ درمی اور سرکشی
میں اندھے ہوگئے، اللہ کریم نے اُن پر
عذاب نازل فرمایا، یہ عذاب ایک سیاہ بادل کی صورت میں تھا، لوگ اِس بادل کو دیکھ کر خوش تھے کہ یہ خوب بارش
برسائے گا، مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس
شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے
اور دروازے بند کئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اور ان کو ہلاک کر دیا، قدرتِ الہی سے سیاہ پردے نمودار ہوئے ، جنہوں
نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔(صراط الجنان، ج3، ص357)بے شک ایسوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے ، اللہ کریم ہمیں ان
سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین