قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
2 years ago

قومِ عاد حضرت ہود علیہ السلام  کی قوم کو کہا جاتا ہے، یہ قوم مقامِ "احقاف" میں رہتی تھی، جو عمان و حضر الموت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے، ان کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح تھا، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلٰی "عاد"کے نام سے پکارنے لگے۔(عجائب القرآن، ص106)

چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی، آپ نے اپنی قوم سے فرمایا:

قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۔

ترجمۂ کنزالایمان:"کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"(پ8،اعراف: 65)

قومِ عاد کی نافرمانیاں:

پیغامِ الہی سن کر قومِ عاد نے آپ علیہ السلام کو جھٹلایا اور نافرمانیوں کا سلسلہ شروع کر دیا، دینِ حق کی دعوت سن کر کافر سردار بولے:

اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۔

ترجمۂ کنزالایمان:" بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں۔"(پ8،اعراف:66)

ان کی اس طرح سخت کلامی اور بے ادبی کے باوجود آپ علیہ السلام نے انتہائی حلم اور تحمل کے ساتھ جواب دیا:" مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ ہے، میں تو اللہ کا رسول ہوں۔"

لیکن قومِ عاد نے پھر بھی آپ کی رسالت کا انکار کیا، آپ کے معجزات کے منکر ہو گئے، چنانچہ کہا:

قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ۔

ترجمۂ کنزالایمان:" بولے اے ہود! تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں ۔ " ( پ 1 2 ، ہود:53)

آخر کار قومِ عاد نے آپ کو جھٹلا دیا اور اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر ایمان لانے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے:لاؤ اگر تم سچے ہو جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔" حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:بے شک تم پر تمھارے ربّ کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔

عذابِ الہی:

اس قوم کی مستقل نافرمانیوں اور دینِ حق کو جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذابِ الہی آیا، تین سال تک قحط سالی اور بارش نہ ہوئی، اس قوم کے کچھ لوگ مکہ گئے اور دعا کی تو اللہ نے تین قسم کے بادل بھیجے، انہوں نے اس سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ سیاہ بادل خوب برسے گا، مگر اس با دل سے ایسی ہوا چلی کہ اُونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ گھروں میں داخل ہوگئے، مگر ہوا کی تیزی سے نہ بچ سکے، اُس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک و برباد کر دیا۔حضرت ہود علیہ السلام اور مؤمنین کو قوم سے جدا ہو گئے تھے، اس لئے سلامت رہے اور آخر عمر شریف تک مکہ میں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پچھلی قوموں سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے دین کے احکامات کو بجا لانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین