حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن پانچ قسموں پر
اترا، (1) حلال(2) حرام(3)محکم اور (4) متشابہ(5) اور پانچ مثالیں، لہذا حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام
مانو، محکم پر عمل کرو اور متشابہ پر
ایمان لاؤ، مثالوں سے عبرت پکڑو۔( مشکوۃ المصابیح ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، حدیث 172،اسلامی کتب خانہ)
قرآن کی بہت ساری مثالوں میں سے
ایک مثال قومِ عاد بھی ہے۔
قومِ عاد دو ہیں، عادِ اولٰی:یہ
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِ ثانیہ:یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں، ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔( تفسیر
صراط الجنان، جلد سوم، ص 351)
میرا موضوع عادِ اولٰی ہے۔قرآن
میں بہت جگہوں پر اس کی نافرمانیوں اور اس قوم پر آنے والے عذاب کا تذکرہ ہے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قوم عاد کی
ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود علیہ السلام کو ان کے طرف بھیجا، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: اے میری قوم!تم
اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ عزوجل
کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ اس پر قوم کے
کافر سردار بولے: ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے اور جو جھوٹا گمان کرتے ہیں اور
تمہیں رسالت کے دعوے میں سچا ہی نہیں جانتے، کفارکا حضرت ہود علیہ السلام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ" تمہیں
بے وقوف سمجھتے ہیں، جھو ٹا گمان کرتے ہیں"
انتہائی درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت
ترین جواب دیا جاتا، مگر حضرت ہود علیہ
السلام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا، اس میں
شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی، چنانچہ فرمایا: اے میری قوم! بیوقوفی کا میرے
ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین
کا رسول ہوں، میں تو تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور
تمہارے لئے قابل اعتماد خیر خواہ ہوں۔(صراط الجنان، ج سوم، 352)
مزید یہ کہ "جب آپ علیہ
السلام کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنا دیتے، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ
کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت
ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے
ہو تو وہ عذاب لے آؤ، جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔
حضرت ہود علیہ السلام نے
فرمایا:بے شک تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔"(صراط الجنان، ج سوم، 352)
قومِ عادجو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اور ان لوگوں کی
مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے
بھرے باغات ان کے پاس تھے، پہاڑوں کو
تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا، تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا
کیا ٹھکانہ ہے؟ کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں
کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے، انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمالِ صالحہ اور
نیکیاں کرتے رہیں۔(عجائب القرآن مع غرائب
القرآن، ص 109)