قومِ عاد کا مختصر تعارف:
قوم عاد احقاف میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان علاقۂ یمن میں ایک ریگستان
ہے۔
قومِ عاد کی نافرمانیاں:
1۔قومِ عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا۔
2۔ دنیا کی قوموں کو اپنی جفا
کاریوں سے، اپنے زورِ قوت کے زعم میں
پامال کر ڈالا تھا۔
3۔یہ لوگ بت پرست تھے۔
4۔ان کے ایک بت کا نام صُداء، ایک کا صُمود اور ایک کاہباء تھا۔
اللہ عزوجل نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو
مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی،
اس پر وہ لوگ منکر ہوئے اور آپ کی تکذیب
کرنے لگے اور کہنے لگے:ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟چند آدمی ان میں حضرت ہود علیہ
السلام پر ایمان لائے، وہ تھوڑے تھے اور
اپنا ایمان چھپائے رہتے تھے، ان مؤمنین
میں سے ایک شخص کا نام مرثد بن سعد بن عفیر تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی
تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی مضبوط عمارتیں
بنائیں، معلوم ہوتا تھا کہ انہیں گمان ہے کہ وہ دنیا میں
ہمیشہ ہی رہیں گے، جب ان کی نوبت یہاں تک
پہنچی تو اللہ عزوجل نے بارش روک دی، تین
سال بارش نہ ہوئی، اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانے میں دستور یہ تھا
کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تو وہ لوگ بیتُ اللہِ الحرام میں حاضر ہوکر اللہ
عزوجل سے اس کے دفع کی دعا کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللہ کو روانہ
کیا، اس وفد میں قیل بن عنزا اور نعیم بن
ہزال اور مرثد بن سعد تھے، یہ وہی صاحب
ہیں جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے، اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی
اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا نانہال قومِ عاد میں تھا،
اس تعلق سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی (گردونواح)
میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا، اس
نے ان لوگوں کا بہت اکرام کیا، نہایت خاطر
و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور
اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔
اس طرح انہوں نے عیش وعشرت میں ایک مہینہ بسر
کیا، معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو
راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت بھول گئے، جو وہاں گرفتارِ بلا ہے، مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ
ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی
ہے، اس لئے اس نے گانے والی باندی کو ایسے
اشعار دیئے، جس میں قومِ عاد کی حاجت کا
تذکرہ تھا، جب باندی نے وہ نظم گائی، تو ان لوگوں کو یاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے
ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں
داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں۔
اس وقت مرثد بن سعد نے کہا: کہ
اللہ کی قسم! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، لیکن اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ
عزوجل سے توبہ کرو، تو بارش ہوگی اور اس
وقت مرثد نے اپنے اِسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ
جا کر دعا کی، اللہ عزوجل نے تین ابر بادل
بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قیل! اپنے اور
اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک ابر اختیار
کر، اس نے ابرِ سیاہ کو اختیار کیا، اس
خیال سے کہ اس سے بہت پانی برسے گا۔
چنانچہ وہ ابر قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر اس میں سے ایک
ہوا چلی، وہ ہوا اس شدّت کی تھی کہ وہ
اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں
سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند
کرلئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس
نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں
کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں
پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے تھے، اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعد ایمان داروں کو ساتھ لے
کر مکۂ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ عزوجل کی عبادت کرتے رہے۔(بحوالہ
ترجمۂ کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان، پارہ 8، الاعراف:صفحہ 301)