اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔

صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر میں ہے: ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کو ایذا دیتے تھے اور ان کی شان میں بدگوئی کرتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں نازل ہوئی۔ یاد رہے کہ اس کا شان نزول اگر چہ خاص ہے لیکن اس کا حکم تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو عام ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جولوگ ایمان والے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس سے انہیں اذیّت پہنچے حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہوتا جس کی وجہ سے انہیں اذیت دی جائے توان لوگوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا اور خود کو بہتان کی سزا اور کھلے گناہ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

مسلمانوں کو ناحق ایذا اور تکلیف نہ دی جائے، یاد رہے کہ مسلمان مردو عورت کو دین اسلام میں یہ حق دیا گیا ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے یہاں اس سے متعلق تین احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر اپنے لیے عبرت کا سامان کیجیے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/ 386، حدیث: 3607) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔

2۔ بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود،4/353، حدیث: 4877)

3۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف یا اس کے بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین،7/177)

آیت و احادیث کی روشنی میں یہ حکم روز روشن کی طرح واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ دوسروں کو تکلیف دینا، قبیح جرم اور کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اسلام کا یہ خوب صورت حکم جس طرح پس پشت ڈالا گیا ہے وہ شرمناک حد تک قابل افسوس ہے۔

حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل آزاری ایسے برے امور میں شامل ہے جو دوسروں کو ہم سے دور کرنے کا باعث بن سکتی ہے، یہ آپس میں نفرت پھیلانے والا کام ہے،لوگ ایسے شخص کے پاس بیٹھنا،بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے جو دل آزاری جیسی بری عادت کا شکار ہوتے ہیں، کاش!ہم ہر ایک سے اللہ پاک کی رضا کے لیے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنے والے بن جائیں، محبتیں بانٹیں اور نفرتیں مٹانے والے بن جائیں۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ