ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے، ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اگر دیگر مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیت خیر ہونے کی صورت میں ہمیں اس کا ثواب ملے گا بلاوجہ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری ہے۔

1۔ بلا اجازتِ شرعی مسلمان کو تکلیف دینا کتنی بڑی جرأت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث:3607)

اللہ و رسول کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷) (پ22، الاحزاب: 57) ترجمہ: بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

ذرا سوچئے کہ کون سا مسلمان اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اللہ و رسول اللہ کو ایذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے۔

2۔ حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کتے اور سؤر کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

3۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: جو شخص مسلمان کو کسی فعل یا قول سے ایذا پہنچائے اگرچہ آنکھ یا ہاتھ کے اشارے سے وہ مستحق تعزیر ہے ( تعزیر کسی گناہ پر بغرض تادیب یعنی ادب سکھانے کے لیے جو سزا دی جاتی ہے اسکو تعزیر کہتے ہیں)۔ (در مختار، 6/106)

4۔ منقول ہے: دو خصلتیں ایسی ہیں کہ ان سے افضل کوئی خصلت نہیں: اللہ پاک پر ایمان لانا اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا، جبکہ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ ان سے زیادہ بری کوئی خصلت نہیں: اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور مسلمانوں کو تکلیف دینا۔ (المنبہات، ص3)

5۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے مسلمان کو تکلیف یا دھوکا دیا وہ ملعون ہے۔ (ترمذی، 3/378، حدیث: 1984)

پیاری بہنو! اللہ پاک کی بارگاہ میں رجوع کر لیجئے سچی توبہ کر لیجئے ٹھہریئے بندوں کی حق تلفی کے معاملے میں بارگاہ الٰہی میں صرف توبہ کرنا کافی نہیں بندوں کے جو جو حقوق پامال کیے ہوں وہ بھی ادا کرنے ہوں گے مثلاً مالی حق ہے تو اس کا حق لوٹانا ہوگا، دل دکھایا ہے تو معاف کروانا ہوگا، آج تک جس جس کا مذاق اڑایا، برے القابات سے پکارا، طنعہ زنی اور طنز بازی کی، دل آزار نقلیں اتاریں، دل دکھانے والے انداز میں آنکھیں دکھائیں غرض کسی طرح بھی بے اجازت شرعی ایذا کا باعث بنے ان سب سے فرداً فرداً معاف کروا لیجئے اگر کسی فرد کے بارے میں یہ سوچ کر معافی نہ مانگی کہ اس کے سامنے میری پوزیشن ڈاؤن ہوجائے گی تو خدارا غور فرما لیجئے قیامت کے روز یہی فرد آپ کی نیکیاں حاصل کرکے اپنے گناہ آپ کے سر ڈال دے گا تو اس وقت کیا ہوگا آج موقع ہے گڑ گڑا کر معافی مانگ کر آخرت کی عزت کی سعی فرما لیجئے۔ اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات!