آج کل یہ بلا بھی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے، آدمی کا اصل نام بہت اچھا ہوتا ہے، پھر لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کو برے ناموں سے پکارتے ہیں۔ جس کا جو نام ہو، اس کو اسی نام سے پکارنا چاہئے، اپنی طرف سے کسی کا الٹا نام مثلاً لمبو، ٹھنگو وغیرہ نہ رکھا جائے، عموماً اس طرح کے ناموں سے سامنے والی کی دل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چڑتا بھی ہے، اس کے باوجود پکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کے لئے اسی الٹے نام سے پکارتا ہے۔ میرے آقا، اعلیٰ حضرت، شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: کسی مسلمان بلکہ غیر مسلم ذمّی کو بھی شرعی حاجت کے بغیر ایسے الفاظ سے پکارنا جس سے اس کی دل شکنی ہو، اسے ایذاء پہنچے، شرعاً ناجائز و حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 23/204)

وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔

یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کو ایذا دیتے اور ان کی بے ادبی کرتے تھے۔ جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے تہمت لگا کرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی۔ لیکن یہاں تفسیر کا ایک اصول یاد رکھیں کہ آیات کا شان نزول اگرچہ خاص ہو لیکن اس کاحکم عام ہوتا ہے۔ اس اصول سے آیت کا عام معنیٰ یہ ہواکہ جولوگ کسی مسلمان کوبلا وجہ شرعی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اورکھلے گناہ کابوجھ اٹھاتے اور اس کی سزاکے حق داربنتے ہیں۔

1۔ حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری، 2/150، حدیث:2518)

2۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے صحابہ کرام سے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے(دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں اور اموال محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث: 6942)

3۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں ) اس قسم کے اشارے، کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7/177)

4۔ حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)

5۔ وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے۔ (کنز العمال، 2/ 218، حدیث: 7822)

6۔ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث: 3607)

مسلمانوں کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذا دینے کا شرعی حکم:اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں آپس میں اتفاق و محبت سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کی دل آزاری کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین