نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی
اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔ (معجم
اوسط، 2 / 386، حدیث: 3607)
بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ
گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ
کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں ) اس قسم کے اشارے، کنائے سے کام لے
جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو
کسی مسلمان کو ہراساں یاخوفزدہ کردے۔ (اتحاف السادۃ المتقین،7/177)
اس سے ہمیں اس بات کاسبق ملتا ہے کہ کسی مسلمان کی
ناحق بےعزتی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اللہ پاک جسے چاہے ذلت و
رسوا کرے اور جسے چاہے عزت سے بخشے۔
بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ
گناہوں میں سے ہے۔(ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)
حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو (اپنے)
شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری، 2 / 150،
حدیث: 2518)
ایک اور روایت میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نےصحابہ
کرام رضی اللہ عنہم سے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انہوں نے عرض
کی: اللہ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی
زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون
ہے؟ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں اور مال
محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث:6942)
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: جس نے (بلا وجہ شرعی) کسی
مسلمان کو ایذا دی اس مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔
(معجم اوسط، 2/386، حدیث: 3607)
بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں
میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)
دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے۔ مشہور تابعی مفسر حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جہنمیوں
پر خارش مسلط کی دی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کوب کھجلائیں گے حتی کہ ان میں سے ایک
کی( کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکار کر کہا جائے گا: اے
فلاں ! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے ؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا۔ تو
مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)
احادیث کی روشنی میں یہ حکم روز روشن کی طرح واضح
طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسروں کو تکلیف دینا، قبیح حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن
ہمارے معاشرے میں اسلام کا یہ خوب صورت حکم جس طرح پس پشت ڈالا گیا ہے وہ شرمناک
حد تک قابل افسوس ہے۔
فرمان مصطفی ﷺ ہے: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ
وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں) اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے
جو اس کی دل آزادی کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو
کسی مسلمان کو ہراسں یا خوف زدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقين (7/177)
ایک اور جگہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے دل آزاری کی
ممانعت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان اپنی جان اور اپنے
اموال سے بے خوف ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ
رہیں۔ (مستدرک، 1/185، حدیث: 24)
فرمانِ آخری نبی ﷺ ہے: کسی مسلمان کا دل خوش کرنا
جن و انسان کی عبادت سے بھی بہتر ہے۔ (مرقاه المفاتيح،8/748)
آپ ﷺ نے حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا: کسی مسلمان
کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف( یا اس کے بارے میں) اس قسم کے
اشارے کنائے سے کام لے جو جو اس کے دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ
کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہر اساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ
المتقین، 7/177)
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: جس نے بلا وجہ کسی مسلمان کو
ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔ (معجم
اوسط، 2/386، حدیث: 3607)
دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے۔ مشہور تابعی مفسر حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جہنمیوں
پر خارش مسلط کر دی جائے گی تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتی کہ ان میں سے ایک
کی( کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکار کر کہا جائے گا: اے
فلاں ! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے ؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا۔ تو
مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)
احادیث کی روشنی میں یہ حکم روز روشن کی طرح واضح
طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسروں کو تکلیف دینا، قبیح حرم اور کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن
ہمارے معاشرے میں اسلام کا یہ خوب صورت حکم جس طرح پس پشت ڈالا گیا ہے وہ شرمناک
حد تک قابل افسوس ہے۔
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ
وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں) اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے
جو اس کی دل آزادی کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو
کسی مسلمان کو ہراسں یا خوف زدہ کر دے۔ (اتحاف السادة المتقين، 7/177)
فرمانِ آخری نبی ﷺ ہے: حضرت ابو موسی اشعری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کون سا اسلام افضل ہے؟ تو
ارشاد فرمایا کہ اس شخص کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام مسلمان سلامت رہیں۔
(بخاری، 1/16، حدیث:11)
ایذا اور تکلیف تو زبان اور ہاتھ کے علاوہ دوسرے
اعضا سے بھی پہنچائی جا سکتی ہے اور کسی بھی عضو سے مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے مگر اس حدیث میں
خصوصیت کے ساتھ زبان اور ہاتھ کا ذکر اس لیے ہے کہ انسان زیادہ تر اعمال و افعال
زبان اور ہاتھ ہی سے انجام پاتے ہیں ہمیں اپنے آپ پر غور کرنا چاہیے کیا ہم کسی کو
ایذا تو نہیں دیتے اگر دیتے ہیں تو اللہ پاک سے توبہ کر لینی چاہیے۔
دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے۔ مشہور تابعی مفسرحضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جہنّمیوں
پرخارش مسلّط کردی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کوکھجلائیں گے حتّی کہ ان میں سے ایک
کی (کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکارکر کہا جائے گا:اے
فلاں!کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو
مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)
اگر کسی مسلمان کی ناحق دل آزاری کی ہے تو توبہ کے
ساتھ ساتھ اس سے معافی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
حدیث مبارک میں ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو (اپنے)شر
سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری،2/150،حدیث:2518)
مومن اور مسلمان میں فرق آقا ﷺ کی زبانی:
روایت
میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے صحابہ کرام سے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان
کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد
فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے(دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد
فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا
رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں
اور اموال محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث:6942)
حقیقی اسلامی معاشرہ وہی ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے
کی راحت و آرام کا خیال رکھیں، مشکل وقت میں دوسروں کے کام آئیں، کسی کو تکلیف نہ
دیں۔
فرمان آخری نبی ﷺ : ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، گاہک
کو دھوکا دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکان دار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ،
ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، کسی کے سودے پر سودا نہ
کرو، اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس
پر ظلم کرے، نہ اسے ذلیل ورسوا کرے اورنہ ہی حقیر جانے۔ (پھر) آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا:
تقویٰ یہاں ہے، اور(مزید یہ کہ) کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ
اپنے مسلمان بھائی کو برا جانے۔ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے،
اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت۔ (مسلم، ص 1064، حدیث:6541)
کیا ہم مومن ہیں؟ غور کرلیں۔ اے اللہ! ہمارے دلوں
میں رحم ڈال کہ ہم دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائیں۔
مومن کو ستانا سخت عذاب کا باعث ہے، اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ
لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِؕ(۱۰) (پ
30، البروج: 10) ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر
توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے۔
نبی کریم ﷺ نے بے شمار احادیث مبارکہ میں مسلمانوں
کو ستانے کی وعید کا ذکر فرمایا ہے چند ملاحظہ فرمائیں:
احادیث مبارکہ:
1۔ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی
اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ پاک کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/ 386، حدیث: 3607)
2۔ وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو
دھوکا دے، یا تکلیف پہنچائے، یا اس کے
ساتھ مکر کرے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/ 425)
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جہنمیوں پر
خارش مسلط کر دی جائے گی تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتی کہ ان میں سے ایک چمڑے
سے ہڈی ظاہر ہو جائے گی تو اسے پکارا جائے گا اے فلاں! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی
ہے ؟وہ کہے گا ہاں تو پکارنے والا کہے گا تو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا
یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء علوم الدین، 2/ 242)
حضرت فضیل فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق
ایذا دینا حلال نہیں تو مومنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر
مدراک، ص 950)
دل آزاری(یعنی نا حق دل دکھانا) ہمارے معاشرے میں کیا جانے والا ایک عام، حرام،
اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ ہماری روز مرہ زندگی میں ان گنت ایسی مثالیں
ہیں جن سے مسلمان کی دل آ زاری ہوتی ہے۔ کسی کا نام بگاڑنا، کسی کے رنگ قد جسم کی
بناوٹ کا مذاق اڑانا، گلیوں میں شور شرابا کر کے دوسروں کو تنگ کرنا خاص کر کےشادی
بیاہ و محافل کے مواقع پر ، کار کو غلط
جگہ پارک کرنا، سڑکوں پر کچرا پھینکنا، کسی مسلمان کو کوئی رنج پہنچا اس پر مسرت
کا اظہار کرنا، ما تحتوں سے برا سلوک کرنا، قرض ادا نا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ آئیے دل
آزاری کے بارے میں چند آیات مبارکہ و احدیث مبارکہ ملاحظہ فرماتی ہیں:
ناحق ایذا دینا: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ
مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ
22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے
ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ
ڈال دیا ہے۔
مجھے ایذا دی: حضور ﷺ فرماتے
ہیں: جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے
اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2 / 386،
حدیث: 3607) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ
تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔
نفس کا صدقہ کیا ہے؟ حضرت
ابو ذر سے روایت ہے نبی کریم ﷺ ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو
تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری، 2 / 150،
حدیث: 2518)
مومن کون ہے؟ حضرت عبداللہ
بن عمرو سے روایت ہے سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان
کون ہے؟ صحابہ ٔکرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔
ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔
ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟صحابہ ٔکرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور
اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی
جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے
بچے۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث: 6942)
حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور
کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین
و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)
دل آزاری از بنت تصدق خان، جامعۃ المدینہ شالیمار ٹاؤن بھلوال ضلع سرگودھا
ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور
اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی
بسر کرتا ہے، ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اور کبھی کچھ
بھی نہیں یعنی نہ تکلیف نہ راحت اگر دیگر مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیت
خیر ہونے کی وجہ سے ثواب ملے گا بلاوجہ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری
ہے اور تیسری صورت میں یعنی جب ہم کسی کو نہ اذیت دیں گے نہ سکون تو نہ ثواب ملے
گا نہ عذاب۔ لیکن کوشش ہونی چاہیے کہ ہم باعث زحمت نہیں بلکہ سبب راحت بنیں۔
دل آزاری کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی تکلیف دینے کو
کہتے ہیں آئیے اس کے متعلق فرامین مصطفیٰ سنتے ہیں:
1۔ اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ فتاویٰ رضویہ شریف جلد 24 صفحہ نمبر 342 میں طبرانی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے ( بلا وجہ شرعی ) کسی مسلمان
کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔
(معجم اوسط، 2/ 386، حدیث: 3607)
اللہ و رسول کو ایذا دینے والوں کے بارے میں ارشاد
ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ
اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷)
(پ22،
الاحزاب: 57) ترجمہ: بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی
لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
ذرا سوچے کہ کون سا مسلمان اس بات کو گوارا کرے گا
کہ وہ اللہ و رسول کو ایذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے!
ہم قہر قہار اور غضب جبّار سے اسکی پناہ مانگتے ہیں
خدایا! کسی کا نہ دل میں دکھاؤں اماں تیرے ابدی عذابوں سے
پاؤں
کس قدر بد ترین جرم ہے! حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ
نے فرمایا: کتےاور سور کو بھی ناحق ایذا یعنی تکلیف دینا حلال نہیں تو مومنین و
مومنات کو ایذا دینا کس قدر بد ترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)
مسلمان سراپا امن ہوتا ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اصل مسلمان وہ
ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں اصل مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو
اپنی جان و مال کے بارے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔ (شرح سنن نسائی، 6/291، حدیث: 5010)
یہاں حدیث کے پہلے جز میں اس طرف اشارہ ہے کہ مومن
اور مسلم محض اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی آدمی کلمہ پڑھ لے اور کچھ متعین اعمال
ادا کرے بلکہ شریعت اسلامیہ کے تقاضوں کے مطابق بھر پور زندگی گزارے مثلاً حسن
سلوک کرنا، دل آزاری نہ کرنا، قطع رحمی نہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس حدیث میں زبان اور
ہاتھ کی تخصیص کی گئی لیکن اس سے ہر وہ چیز مراد ہے جس سے تکلیف ہو اور ان کا بطور
خاص اس لیے ذکر کیا گیا کہ زیادہ دل آزاری ان اعضاء کی وجہ سے ہوتی ہے۔
لوگوں کو تکلیف دینے والا ملعون: آپ
ﷺ نے فرمایا: جس نے مسلمان کو تکلیف یا دھوکہ دیا وہ ملعون ہے۔ (اس پر لعنت کی گئی
ہے)۔ (ترمذی، 3/378، حدیث: 1984)
برے خاتمے کے اسباب: شرح
الصدور میں ہے کہ علماء کرام نے فرمایا کہ برے خاتمے کے 4 اسباب ہیں: 1۔ نماز میں
سستی 2۔ شراب نوشی 3۔ والدین کی نافرمانی 4۔ مسلمانوں کو تکلیف دینا۔ (شرح الصدور،
ص 27)
مجھے دیدے ایمان پر استقامت پئے سید محتشم یا الٰہی
دو اچھی اور بری خصلتیں:
منقول ہے کہ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ ان سے افضل کوئی خصلت نہیں: 1۔ اللہ پر ایمان
لانا 2۔ مسلمانوں کو نفع پہچاننا، جبکہ دو ایسی خصلتیں ہے کہ ان سے زیادہ بری کوئی
خصلت نہیں: 1۔ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا 2۔ مسلمانوں کو تکلیف دینا۔ (المنبہات،
ص3)
پہلی خصلت بری اس وجہ سے ہے کہ یہ حق اللہ کی تلفی ہے کہ بندوں پر اللہ کا
حق یہ ہے کہ وہ اسکی وحدانیت کا اقرار کریں، جبکہ دوسری اس لیے کہ اس میں حق
العباد کی تلفی ہے کیونکہ قرآن و احادیث میں مسلمانوں کے ساتھ صلح رحمی کا حکم دیا
گیا۔
دل آزاری میں کیا شامل ہے: اس
میں بہت ساری صورتیں شامل ہیں جن سے مسلمانوں کو تکلیف ہو سکتی ہے بلکہ ہوتی ہے مثلاً
مسلمانوں کا ایک دوسرے پر ہنسنا برے القابات سے پکارنا، راستے میں تکلیف دہ چیز نہ
ہٹانا وغیرہ وغیرہ۔
دل آزاری لوگوں کا دل دکھانا، کسی کو ایسی بات کر
دینا جس سے اس کے دل کو تکلیف پہنچے۔ کسی کو degrade
کرنا ہمارے معاشرے میں یہ چیز عام ہے کہ
اگر کوئی بندہ کچھ نیا کرنا شروع کرے جیسے کاروبار وغیرہ تو اس کو ایسی باتیں کر
دیتے ہیں جس سے اس کی دل آزاری ہو جاتی ہے اور اگر کوئی بچہ کچھ نیا کرے تو والدین تک بھی اس کو ایسی باتیں کر دیتے ہیں جس سے بچے کی دل
آزاری ہوتی ہے۔ ہم دوسروں کا نام بگاڑ کر بھی ان کی دل آزاری کر دیتے ہیں۔ دل
آزاری کرنے میں 2 گناہ ہیں: ایک گناہ تو حقوق العباد کا ہے کہ وہ بندے کا حق تلف
کر رہا ہے کیوں کہ مسلمان مسلمان کا محافظ ہوتا ہے دوسرا اللہ پاک کی نافرمانی کر رہا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا
نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا
تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ
الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الظّٰلِمُوْنَ(۱۱) (پ
26، الحجرات: 11) ترجمہ: اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان
ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں
سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی برا
نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔
امام سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے ایک
غریب شخص کو یہ کہہ کر پکارا اے مفلس! تو چالیس سال تک میں خود غربت و افلاس میں
مبتلا رہا۔ امیر اہلسنت مدنی پھول ارشاد فرماتے ہیں: کسی کو ستانا نہیں چاہئے، کسی
کا دل نہیں دکھانا چاہیے۔ کسی بھی غریب اور مسکین کو طعنہ نہیں دینا چاہیے۔ اگر
ایسا ہوا ہے تو توبہ کیجئے اور اس بندے سے بھی معافی مانگ لیجئے جس کا دل دکھایا
ہو۔ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ
مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ
22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے
ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ
ڈال دیا ہے۔
دل آزاری کسی کا دل دکھانا کسی کو تکلیف دینا بہت
برا کام ہے کہ کسی کی دل آزاری کرنے سے انسان خوش نہیں ہوتا بلکہ اس کا دل بھی بے
چین ہو جاتا ہے، مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کے ہاتھ اور
زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے حضرت امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
سے مروی فرمان مصطفی ﷺ ہے: جس نے مسلمانوں کو تکلیف یا دھوکہ دیا وہ ملعون ہے۔ (ترمذی، 3/378، حدیث: 1984)
مسلمانوں کی عزت کی دھجیاں اڑا کر خوش ہونے والے
سنبھل جائیں کہ اس کا انجام بہت برا ہوگا، چنانچہ حضرت یزید بن شجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں: جس طرح سمندر کے کنارے ہوتے ہیں اسی طرح جہنم کے کنارے بھی ہوتے ہیں جس میں بختی
اونٹوں جیسے سانپ اور خچروں جیسے بچھو رہتے ہیں اہل جہنم جب عذاب میں کمی کے لیے
فریاد کریں گے تو حکم ہوگا کہ کناروں سے باہر نکلو وہ جو ہی نکلیں گے وہ سانپ
انہیں اونٹوں اور جب چہروں سے پکڑ لیں گے پھر ان کی کھال تک اتار لیں گے وہ لوگ
وہاں سے بچنے کے لیے آگ کی طرف بھاگیں گے پھر ان پر ایک کھجلی مسلط کر دی جائے گی
وہ اس قدر کھجائیں گے کہ ان کا گوشت پوست سب جھڑ جائیں گے صرف ہڈیاں رہ جائیں گی
پکار پڑے گی: اے فلاں! کیا تجھے تکلیف ہو رہی ہے؟ وہ کہے گا ہاں تو کہا جائے گایہ اس ایذا کا بدلہ ہے جو تم
مومنوں کو دیا کرتے تھے۔ (مستدرک، 4/627، حدیث: 6142)
کیا ابھی باز نہیں آئیں گے! ایسا نہ ہو کہ ہم معافی
تلافی سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتر جائیں جلدی کیجئے ابھی وقت ہے جس سے ان بن ہو
گئی ہو اپ نے اس کی دل آزاری کر دی ہو تو دنیا میں ہی اس کا ازالہ کر دیجئے ورنہ
یاد رکھیے آخرت کا عذاب ایک لمحے کے کروڑ میں حصے کے لیے بھی برداشت نہ کیا جائے
گا بعض لوگوں کو صرف ترغیب دلانے کی ضرورت ہوتی ہے اگر انہیں نہ کرنے والے کام ہائی لائٹ کر دیئے جائیں تو
وہ انہیں نہ کرنے یعنی ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں شاید ہم بھی انہی میں سے
ایک ہوں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں ہو کہ دل آزاری کیسے ہوتی ہے کون کون سے عمل سے ہوتی
ہے وغیرہ وغیرہ۔