دل آزاری لوگوں کا دل دکھانا، کسی کو ایسی بات کر
دینا جس سے اس کے دل کو تکلیف پہنچے۔ کسی کو degrade
کرنا ہمارے معاشرے میں یہ چیز عام ہے کہ
اگر کوئی بندہ کچھ نیا کرنا شروع کرے جیسے کاروبار وغیرہ تو اس کو ایسی باتیں کر
دیتے ہیں جس سے اس کی دل آزاری ہو جاتی ہے اور اگر کوئی بچہ کچھ نیا کرے تو والدین تک بھی اس کو ایسی باتیں کر دیتے ہیں جس سے بچے کی دل
آزاری ہوتی ہے۔ ہم دوسروں کا نام بگاڑ کر بھی ان کی دل آزاری کر دیتے ہیں۔ دل
آزاری کرنے میں 2 گناہ ہیں: ایک گناہ تو حقوق العباد کا ہے کہ وہ بندے کا حق تلف
کر رہا ہے کیوں کہ مسلمان مسلمان کا محافظ ہوتا ہے دوسرا اللہ پاک کی نافرمانی کر رہا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا
نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا
تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ
الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الظّٰلِمُوْنَ(۱۱) (پ
26، الحجرات: 11) ترجمہ: اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان
ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں
سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی برا
نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔
امام سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے ایک
غریب شخص کو یہ کہہ کر پکارا اے مفلس! تو چالیس سال تک میں خود غربت و افلاس میں
مبتلا رہا۔ امیر اہلسنت مدنی پھول ارشاد فرماتے ہیں: کسی کو ستانا نہیں چاہئے، کسی
کا دل نہیں دکھانا چاہیے۔ کسی بھی غریب اور مسکین کو طعنہ نہیں دینا چاہیے۔ اگر
ایسا ہوا ہے تو توبہ کیجئے اور اس بندے سے بھی معافی مانگ لیجئے جس کا دل دکھایا
ہو۔ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ
مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ
22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے
ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ
ڈال دیا ہے۔