آپ ﷺ نے حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا: کسی مسلمان
کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف( یا اس کے بارے میں) اس قسم کے
اشارے کنائے سے کام لے جو جو اس کے دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ
کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہر اساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ
المتقین، 7/177)
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: جس نے بلا وجہ کسی مسلمان کو
ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔ (معجم
اوسط، 2/386، حدیث: 3607)
دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے۔ مشہور تابعی مفسر حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جہنمیوں
پر خارش مسلط کر دی جائے گی تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتی کہ ان میں سے ایک
کی( کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکار کر کہا جائے گا: اے
فلاں ! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے ؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا۔ تو
مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)
احادیث کی روشنی میں یہ حکم روز روشن کی طرح واضح
طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسروں کو تکلیف دینا، قبیح حرم اور کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن
ہمارے معاشرے میں اسلام کا یہ خوب صورت حکم جس طرح پس پشت ڈالا گیا ہے وہ شرمناک
حد تک قابل افسوس ہے۔
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ
وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں) اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے
جو اس کی دل آزادی کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو
کسی مسلمان کو ہراسں یا خوف زدہ کر دے۔ (اتحاف السادة المتقين، 7/177)
فرمانِ آخری نبی ﷺ ہے: حضرت ابو موسی اشعری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کون سا اسلام افضل ہے؟ تو
ارشاد فرمایا کہ اس شخص کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام مسلمان سلامت رہیں۔
(بخاری، 1/16، حدیث:11)
ایذا اور تکلیف تو زبان اور ہاتھ کے علاوہ دوسرے
اعضا سے بھی پہنچائی جا سکتی ہے اور کسی بھی عضو سے مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے مگر اس حدیث میں
خصوصیت کے ساتھ زبان اور ہاتھ کا ذکر اس لیے ہے کہ انسان زیادہ تر اعمال و افعال
زبان اور ہاتھ ہی سے انجام پاتے ہیں ہمیں اپنے آپ پر غور کرنا چاہیے کیا ہم کسی کو
ایذا تو نہیں دیتے اگر دیتے ہیں تو اللہ پاک سے توبہ کر لینی چاہیے۔