دل آزاری از بنت تصدق خان، جامعۃ المدینہ شالیمار ٹاؤن بھلوال ضلع سرگودھا
ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور
اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی
بسر کرتا ہے، ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اور کبھی کچھ
بھی نہیں یعنی نہ تکلیف نہ راحت اگر دیگر مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیت
خیر ہونے کی وجہ سے ثواب ملے گا بلاوجہ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری
ہے اور تیسری صورت میں یعنی جب ہم کسی کو نہ اذیت دیں گے نہ سکون تو نہ ثواب ملے
گا نہ عذاب۔ لیکن کوشش ہونی چاہیے کہ ہم باعث زحمت نہیں بلکہ سبب راحت بنیں۔
دل آزاری کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی تکلیف دینے کو
کہتے ہیں آئیے اس کے متعلق فرامین مصطفیٰ سنتے ہیں:
1۔ اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ فتاویٰ رضویہ شریف جلد 24 صفحہ نمبر 342 میں طبرانی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے ( بلا وجہ شرعی ) کسی مسلمان
کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔
(معجم اوسط، 2/ 386، حدیث: 3607)
اللہ و رسول کو ایذا دینے والوں کے بارے میں ارشاد
ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ
اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷)
(پ22،
الاحزاب: 57) ترجمہ: بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی
لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
ذرا سوچے کہ کون سا مسلمان اس بات کو گوارا کرے گا
کہ وہ اللہ و رسول کو ایذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے!
ہم قہر قہار اور غضب جبّار سے اسکی پناہ مانگتے ہیں
خدایا! کسی کا نہ دل میں دکھاؤں اماں تیرے ابدی عذابوں سے
پاؤں
کس قدر بد ترین جرم ہے! حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ
نے فرمایا: کتےاور سور کو بھی ناحق ایذا یعنی تکلیف دینا حلال نہیں تو مومنین و
مومنات کو ایذا دینا کس قدر بد ترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)
مسلمان سراپا امن ہوتا ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اصل مسلمان وہ
ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں اصل مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو
اپنی جان و مال کے بارے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔ (شرح سنن نسائی، 6/291، حدیث: 5010)
یہاں حدیث کے پہلے جز میں اس طرف اشارہ ہے کہ مومن
اور مسلم محض اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی آدمی کلمہ پڑھ لے اور کچھ متعین اعمال
ادا کرے بلکہ شریعت اسلامیہ کے تقاضوں کے مطابق بھر پور زندگی گزارے مثلاً حسن
سلوک کرنا، دل آزاری نہ کرنا، قطع رحمی نہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس حدیث میں زبان اور
ہاتھ کی تخصیص کی گئی لیکن اس سے ہر وہ چیز مراد ہے جس سے تکلیف ہو اور ان کا بطور
خاص اس لیے ذکر کیا گیا کہ زیادہ دل آزاری ان اعضاء کی وجہ سے ہوتی ہے۔
لوگوں کو تکلیف دینے والا ملعون: آپ
ﷺ نے فرمایا: جس نے مسلمان کو تکلیف یا دھوکہ دیا وہ ملعون ہے۔ (اس پر لعنت کی گئی
ہے)۔ (ترمذی، 3/378، حدیث: 1984)
برے خاتمے کے اسباب: شرح
الصدور میں ہے کہ علماء کرام نے فرمایا کہ برے خاتمے کے 4 اسباب ہیں: 1۔ نماز میں
سستی 2۔ شراب نوشی 3۔ والدین کی نافرمانی 4۔ مسلمانوں کو تکلیف دینا۔ (شرح الصدور،
ص 27)
مجھے دیدے ایمان پر استقامت پئے سید محتشم یا الٰہی
دو اچھی اور بری خصلتیں:
منقول ہے کہ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ ان سے افضل کوئی خصلت نہیں: 1۔ اللہ پر ایمان
لانا 2۔ مسلمانوں کو نفع پہچاننا، جبکہ دو ایسی خصلتیں ہے کہ ان سے زیادہ بری کوئی
خصلت نہیں: 1۔ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا 2۔ مسلمانوں کو تکلیف دینا۔ (المنبہات،
ص3)
پہلی خصلت بری اس وجہ سے ہے کہ یہ حق اللہ کی تلفی ہے کہ بندوں پر اللہ کا
حق یہ ہے کہ وہ اسکی وحدانیت کا اقرار کریں، جبکہ دوسری اس لیے کہ اس میں حق
العباد کی تلفی ہے کیونکہ قرآن و احادیث میں مسلمانوں کے ساتھ صلح رحمی کا حکم دیا
گیا۔
دل آزاری میں کیا شامل ہے: اس
میں بہت ساری صورتیں شامل ہیں جن سے مسلمانوں کو تکلیف ہو سکتی ہے بلکہ ہوتی ہے مثلاً
مسلمانوں کا ایک دوسرے پر ہنسنا برے القابات سے پکارنا، راستے میں تکلیف دہ چیز نہ
ہٹانا وغیرہ وغیرہ۔