دل آزاری مطلب کسی کا دل دکھانا۔    یہ حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔

دل آزاری کی مذمّت پر احادیث:

1۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں) اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کرے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7 /177 ) اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کی دل آزاری جائز نہیں۔

2۔ جس نے (بلا وجہ شرعی) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث: 360) اس حدیث پاک سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی مسلمان کی دل آزاری کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔

3۔ جب تم تین آدمی موجود ہو تو دو آدمی اپنے (تیسرے) ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم اور لوگوں سے مل جاؤ، اس لیے کہ ایسا کرنا اسے غمگین کر دے گا۔ (بخاری، 4/185، حدیث: 6290)

ان احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان کی دل آزاری نہ کرے۔ لہذا ہر کسی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی وجہ سے کبھی بھی کسی مسلمان کی دل آزاری نہ ہو کیونکہ یہ معاملہ حقوق العباد کا ہے اور حقوق العباد اس وقت تک اللہ معاف نہیں کرے گا جب تک بندہ نہ کر دے۔ اللہ پاک ہمیں اس گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دل آزاری کی صورتیں: دل آزاری کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں جیسے کسی فقیر کو اس طرح پکارنا او کنگلے۔ کسی کو کالا کہہ کر پکارنا یا کسی کو موٹا کسی کو پتلا کہہ کر پکارنا کسی کا نام بگاڑنا یہ سب دل آزاری کی صورتیں ہیں اور بھی دل آزاری کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں اور کوئی ایسا فعل جو کسی کی پریشانی کا باعث بنے اس سے بچیے۔

اگر ہم سے کسی کی دل آزاری ہو جائے تو ہمیں چاہیے کہ ہم فوراً اس گناہ سے توبہ کر لیں اور جس کی دل آزاری کی اس سے بھی معافی مانگ لیں کہ نا جانے موت کب آ جائے اور پھر ہمیں اس کا موقع نہ مل سکے۔

اللہ پاک ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین