اللہ کریم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور
اسے اس بات کا درس دیا کہ وہ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے، کسی کی دل آزاری کرنے سے خود
کو محفوظ رکھے۔ دل آزاری کا معنی یہ ہے کہ کسی انسان کو اذیت پہچانا وغیرہ، آسان
الفاظ میں سمجھئے تو مختصر یہ ہے کہ وہ واقعات جو کسی کے سکون، خوشی یا توقعات کے
مخالف ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ
الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا
بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور
جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں
نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔
مسلمانوں کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذا
دینے کا شرعی حکم: اعلى حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ الله علیہ فرماتے
ہیں: مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔
مسلمان مرد و عورت کو دین اسلام میں یہ حق دیا گیا
ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے یہاں اس سے
متعلق تین احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں، چنانچہ
(1)تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک
صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری، 2/150،
حدیث:2518)
(2) کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ صحابہ کرام
نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس
کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ
مومن کون ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کی: الله اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد
فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور
مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے بچے۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث: 6942)
(3) جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی
اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث:
3607) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی
بالآخر الله تعالىٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔
دل آزاری کی عموما دو اقسام ہیں: 1۔ لسانی ( یعنی
زبان کے ذریعے ایسے الفاظ استعمال کرنا جس سے دوسرے انسان کو اذیت پہنچے) 2۔ فعلی (
یعنی ایسا کام کرنا جس سے دوسرا انسان اذیت میں مبتلا ہوجائے)۔
اگر غور و فکر کیا جائے تو حقیقی اسلامی معاشرہ وہی
ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کی راحت و آرام کا خیال رکھیں، مشکل وقت میں دوسروں کے
کام آئیں، کسی کو تکلیف نہ دیں اور اپنے باہمی تعلقات ملنساری، حسن اخلاق اور خیر
خواہی پر استوار کریں۔ اسلام انہی چیزوں کا درس دیتا ہے اور معاشرے میں نرمی،
محبت، شفقت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھاتا اور معاشرے کو نقصان پہنچانے والے
امور مثلاً بے جا شدت اور ایذا رسانی سے منع کرتا ہے۔ آپس میں اچھے تعلقات اور صلح
صفائی سے زندگی گزارنا اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ
لوگوں کے حقوق ضائع کرکے اور انہیں تکلیف پہنچا کر کبھی اچھے تعلقات قائم نہیں کئے
جاسکتے۔
اللہ کریم ہمیں حقیقی معنوں میں اسلام کی تعلیمات
پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور دل آزاری کرنے سے ہمیشہ ہمیں محفوظ
فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبيين ﷺ