قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ(۲۶۳) (پ 3، البقرۃ: 263) ترجمہ: سائل کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد اس کی دل آزاری ہو اور اللہ بےنیاز بڑے حلم والا ہے۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: کسی مسلمان کی طرف یا اس کے بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں اور خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7/177)

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: بیشک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)

دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

اگر کسی مسلمان کی ناحق دل آزاری کی ہے تو توبہ کے ساتھ ساتھ اس سے معافی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کی دل آزاری کی تھی وہ تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملتا تو ایسی صورت میں وہ اپنے لئے اور اس کے لئے ندامت کے ساتھ مغفرت کی دعا کرتا رہے اور اللہ کی رحمت سے یہ امید رکھے کہ اللہ پاک صلح کی کوئی صورت پیدا فرما کر اسے آپ سے راضی کردے گا۔ اللہ پاک قیامت کے دن اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے صلح فرمائے گا۔ کسی کے مال میں حق تلفی کی ہے مثلاً کسی کا قرض آتا ہے وہ چکا دے اور اگر ادائیگی میں تاخیر کی ہے تو معافی بھی مانگے۔ جس سے رشوت لی، جس کی جیب کاٹی، جس کے یہاں چوری کی، جس کا مال لوٹا ان سب کو ان کے مال لوٹانے ضروری ہیں یا ان سے مہلت لے یا معاف کروا لے اور جو تکلیف پہنچی اس کی بھی معافی مانگے۔ اگر وہ شخص فوت ہوگیا ہے تو وارثوں کو دے۔ اگر کوئی وارث نہ ہو تو اتنی رقم صدقہ کرے یعنی مساکین کو دے دے۔ صدقہ کر دینے کے بعد بھی اگر صاحبِ حق نے مطالبہ کر دیا تو دینا پڑے گا۔ (ظلم کا انجام، ص 54)