آج کل عام شکایت ہے کہ زن و شو میں نااتفاقی ہے مرد
کو عورت کی شکایت ہے تو عورت کو مرد کی شکایت ہے۔ ہر ایک دوسرے کے لیے بلائے جان
(مصیبت) ہے اور جب اتفاق نہ ہو تو زندگی تلخ یعنی مشکل اور نتائج نہایت خراب ہو
جاتے ہیں۔ شوہر کے حقوق تمام حقوق حتیٰ کہ والدین کے حقوق سے بھی بڑھ کر ہیں۔ قرآن
پاک میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے جس سے مردوں کی بڑائی ظاہر ہوتی ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء:
34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔
1۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: اگر میں کسی شخص کو کسی
مخلوق کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ
کرے۔ سجدہ کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ الله تعالیٰ نے مردوں کا حق عورتوں کے ذمہ کر
دیا۔ (مستدرک للحاکم، 5/240، حدیث:7410)
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
الله ﷺ نے فرمایا: شوہر نے عورت کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصے میں اس نے
رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ (بخاری،2/377، حدیث:3237)
3۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ کہ شوہر کا حق عورت پر یہ ہے کہ
اپنے نفس کو اس سے نہ روکے اور سواء فرض کے کسی دن بغیر اس کی اجازت کے روزہ نہ رکھے
اگر ایسا کیا یعنی بغیر اجازت روزہ رکھ لیا تو گنہگار ہوگی اور بدون اجازت اس کا
کوئی عمل قبول نہ ہوگا اگر عورت نے کر لیا تو شوہر کو ثواب ہے اور عورت کو گناہ۔ (کنز
العمال، جزء 16، 2/144، حدیث:44801)
4۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے کہ عورت پر شوہر کا حق یہ ہے
کہ اس کے بچھونے کو نہ چھوڑے اور اس کی قسم کو سچا کرے اور بغیر اس کی اجازت کے
باہر نہ جائے اور ایسے شخص کو مکان میں آنے نہ دے جس کا آنا شوہر کو پسند نہ ہو۔ (معجم
کبیر، 2/52، حدیث:1258)
5۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے کہ اے عورتوں! خدا سے ڈرو
اور شوہر کی رضامندی کی تلاش میں رہو اس لیے کہ عورت کو اگر معلوم ہوتا کہ شوہر کا
کیا حق ہے تو جب تک اس کے پاس کھانا حاضر رہتا یہ کھڑی رہتی۔ (کنز العمال، جز 16،
2/145، حدیث: 44809)
لہذا عورت کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے شوہر کے
حقوق کا خیال رکھتی ہے اور بروقت اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔
چاہیے کہ شوہر کے حقوق ادا کر کے الله پاک کی رضا کی حقدار بنے۔ رب کریم عمل کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین