اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے چار قسم کے حقوق متعین فرمائے ہیں یعنی ذاتی، معاشرتی، معاشی اور قلبی حقوق۔تو آج ہم اِن شآءَ اللہ شوہر کے ان حقوق کی تفصیل سے آگاہ ہونے کی کوشش کریں گے۔مستورات ان حقوق کو اپنی ذمہ داری کے اعتبار سے سنیں،جب کہ مرد حضرات انہیں بیویوں پر مسلط ہونے کے لیے نہیں، بلکہ ان کی معاونت اور اپنی بیٹیوں کو ان کے شوہروں کے حقوق بتانے کے لیے سنیں۔

بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زیادہ عظیم ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں:میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا: أَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلٰی الْمَرْأَةِ قَالَ: زَوْجُہَا، قُلْتُ: فَأَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلَی الرَّجُلِ قَالَ: أُمُّہُ ․(السنن الکبریٰ للنسائی) ترجمہ: عورت پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س کے شوہر کا، پھر میں نے عرض کیا مرد پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س کی ماں کا۔

ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے جب خاوند کے حقوق کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حَقُّ الزَّوْجِ عَلٰی زَوْجَتِہ أَنْ لَّوْ کَانَتْ قَرْحَةٌ فَلَحَسَتھا مَا أَدَّتْ حَقَّہ ترجمہ: آدمی کا اس کی بیوی پر حق یہ ہے کہ اگر اس کے بدن پرکوئی زخم ہو اور وہ اسے چاٹ لے تو بھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔(الترغیب والترھیب)

حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أیُّما امرأةٍ ماتَت وزوجُہا عنہا راضٍ دخلَتِ الجنَّةَ (ترمذی) کہ جس عورت کا اس حالت میں انتقال ہو جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ عورت جنت میں داخل ہوگی۔آیئے! سب سے پہلے شوہر کے ذاتی حقوق کی بات کرتے ہیں۔

ذاتی حقوق:حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی کے کاموں میں لگنا۔شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے ہوئے الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف سے شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔ شادی ہو جانے کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔قلبی خوشی سے اس کی خدمت میں لگنا اور اس کے لباس، کھانے وغیرہ کی تیاری میں اس کی مرضی کا خیال رکھنا۔اور بروقت اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا، مثلا: دفتر وغیرہ جانے کے وقت اس کے کپڑے تیار ہوں، جوتے تیار ہوں، اس کی ضروری اشیاء جو اس نے اپنے ساتھ لے جانی ہیں وہ تیار ہوں، اور سب اشیاء ایک متعین جگہ یانظروں کے سامنے والی جگہ میں موجود ہوں، ایمرجنسی کے احوال میں کام آنی والی چیزیں بالخصوص اضافی سوٹ وغیرہ استری شدہ تیار رکھنا، اس کے واپس آنے کے وقت، گھر کی صفائی ستھرائی مکمل کیے ہوئے رکھنا اور شوہر کے کھانا کھانے کے وقت میں کھانا تیار رکھنا، وغیرہ وغیرہ امور شوہر کو خوش کر دینے والے ہیں۔

مرد گھر کے باہر کی ذمہ داری رکھتا ہے اور عورت کی ذمہ داری گھر کے اندر کی ہے، جیسے گھر کی نگرانی، صفائی اور کھانے پینے کا انتظام وغیرہ، یہی طریقہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں رائج رہا ہے۔

حضرت حصین بن محصن بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی کسی حاجت کے لیے خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں، جب اپنی حاجت سے فارغ ہوگئیں تو آپ نے دریافت فرمایا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اپنے شوہر کے ساتھ تیرا معاملہ کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!میں اس کے حق کی ادائیگی اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی، الا یہ کہ میرے بس سے باہر ہو، آپ نے فرمایا: دھیان رکھنا کہ اس کے ساتھ تمہارا معاملہ کیسا رہتا ہے، وہ تمہارے لیے جنت یا جہنم کا سبب ہے۔(مسند احمد)

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتی رہے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ۔

بیوی کا انس و محبت میں شوہر کو ہر وقت کے لیے خود پر اختیار دینا۔حضرت طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ فوراًآ جائے ،چاہے وہ چولہے کے پاس مشغول ہو۔(ترمذی)

اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور وہ انکار کرے، پس شوہر ناراض ہو کر رات گزارے تو اس عورت پر صبح تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور وہ انکارکرے تو الله تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے، یہاں تک کہ شوہر اس سے خوش ہو جائے ۔مشکوۃ

یہ کوشش کرنا کہ بلا وجہ شوہر سے خدمت نہ لی جائے اوراگر کسی موقع پر کوئی کام لینا ہی مقصود ہو تو کام کا بتاتے ہوئے درخواست کا لہجہ اختیار کرنا، نہ کہ حکم کا۔ہاں، ایک دوستانہ بے تکلفی کی بات اور ہے۔

گھر میں کیے جانے والے شوہر کے کاموں میں حتی الوسع اس کا ہاتھ بٹانا۔

گھریلو اور بچوں کی تربیت کے معاملات میں شوہر کے شرعا جائز فیصلوں پر عمل کرنا اور اس کے مشورہ طلب امور میں بھر پور اخلاص سے اچھا مشورہ دینا۔

خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اُسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے۔

اگر شوہر ایک سے زائد نکاح کرنا چاہے تو اسے اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے خوشی سے اجازت دینا۔

معاشرتی حقوق:تمام رشتوں اور تعلقات کے ہر جائز معاملے میں شوہر کو ترجیح دینا۔اس کے ماں باپ سے، خصوصاً ماں سے اپنے حقیقی ماں باپ کی طرح حسن سلوک اختیار کرنا،کیوں کہ مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے، جب کہ عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔شوہر کے ماں باپ یا دوسرے اعزہ کی طرف سے اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا شوہر کو طعنہ نہ دینا کہ وہ تو ایسے ہیں، ایسے ہیں اور ایسے ہیں۔اسی طرح شوہر کی طرف سے پہنچنے والی ناگواری کی وجہ سے اس کو کوستے ہوئے اس کے والدین وغیرہ کو درمیان میں داخل نہ کرنا، مثلا: تم بھی ایسے ہو اور تمہارا فلاں اور فلاں بھی ایسا ہی ہے۔شوہر کو بلا وجہ اس کے ماں باپ اور گھر انے سے الگ ہو جانے کے لیے اصرار نہ کرنا۔اس کے لیے ایسے کشمکش کے حالات نہ پیدا کرنا جن میں اس کے لیے بیوی اور اپنے دیگر متعلقہ رشتوں کے درمیان فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے ۔شوہر کو معاشرے میں یعنی اپنے علاوہ لوگوں میں عزت دینا۔اس کے ساتھ کسی دوسرے، خصوصاً اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں وغیرہ کے سامنے اس سے بحث و تکرار نہ کرنا۔بلاوجہ شکوہ وشکایت کا رویہ اختیار نہ کرنا۔اسی طرح بچوں کے سامنے ان کے باپ کا وقار بحال رکھنا۔اپنی سوکنوں سے اچھے رویے سے پیش آنا اور کبھی کبھی انہیں اپنے حق پر ترجیح دینا۔بچوں کے جو معاملات ان کے باپ سے خصوصا متعلق ہیں یا جن معاملات میں باپ انہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دے، تو بچوں کو یہ باور کروانا کہ ان کا باپ ان کے اور ان کی ماں کے معاملے میں پوری طرح خود مختار ہے۔گھر میں بھی اور باہر بھی ہر جائز کام میں شوہر کے ہر جائز فیصلے کی تصدیق کرنا، ان فیصلوں کی تائید میں اس کے ساتھ کھڑے ہونا اور ان پر عمل درآمد میں حتی المقدور اس کی معاونت کرنا۔اس کے دیگر رشتہ داروں کو بھی پردے اور دیگر شرعی اصولوں کے اہتمام کے ساتھ عزت دینا اور شوہر کے ان سے ملنے میں راضی رہنا۔شوہر کی راز اور پردے کی باتیں دوسروں سے محفوظ رکھنا۔دوسروں کے سامنے اندرون خانہ مشکلات کو بطور شکوہ وناشکری ذکر نہ کرنا۔

معاشی حقوق:شوہر کی آمدن اور گھر بار کے دیگر وسائل سے زیادہ اس سے مطالبے نہ کرنا۔بے جا مطالبات، حد سے بڑھی ہوئی اپنی ضروریات اور فضولیات پوری کروانے کے لیے شوہر پر دباوٴ نہ ڈالنا، قناعت کی صفت والی عورتیں اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسندیدہ ہیں۔خاوند کی آمدن کے اندر ہی اپنی جائز ضروریات پوری کروانا۔اس کے مال کی حفاظت کرنا، اسی طرح ضرورت کے کاموں میں بھی فضول خرچی نہ کرنا، بلکہ کفایت شعاری کو اختیار کرنا۔شوہر کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس کے مال کو خودیا کسی کو استعمال کے لیے نہ دینا۔ہاں، چہوٹی موٹی ایسی چیزیں جن کے بلا اجازت استعمال کر لینے کے بارے میں معروف ہے کہ شوہر ناراض نہیں ہو گا ان کے استعمال میں حرج نہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔


اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو پیدا فرمایا اور اس کائنات میں طرح طرح کے عجائبات پیدا فرمائے ۔اور رب لم یزل انسانی نسل کا آغاز حضرت آدم علیہ السّلام سے کیا۔حضرت آدم علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پیدا فرمایااور رب لم یزل نے آپ علیہ السّلام کی پسلی سے حضرت حوا رضی اللہ عنہ کو پیدا فرمایا۔پھر ان کے باہمی جنسی تعلق سے انسانی نسل کا آغاز ہوا۔

اس انسانی نسل کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نظام، ایسا رشتہ متعارف کروایا جسے آج دنیا میاں بیوی کے رشتے سے جانتی ہے۔اور اس رشتہ کی حفاظت کے لیے جس طرح شوہر پر بیوی کے حقوق ہیں۔

شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا (2) رہائش مہیا کرنا (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا (4) نیک باتوں حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں۔

اسی طرح کچھ حقوق بیوی پر شوہر کے بھی ہیں:

بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)

شوہر کے حقوق کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

(1) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِعِین کہتی ہیں: خدا پاک تجھے قتل کرے، اِسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آ جائے گا۔(ترمذی، کتاب الرضاع، ۱۹-باب، ۲/۳۹۲، الحدیث: ۱۱۷۷)

(2) اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رَضِیَ ا للہُ تعالیٰ عَنْہا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حقّ الزوج علی المراۃ، ۲/۳۸۶، الحدیث: ۱۱۶۴)

عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں تب ہی وہ احسن طریقے سے زندگی گزارنے میں کامیاب ہونگے۔


اللہ پاک نے انسانوں کو بدکاری، بےحیائی، شیطانی وسوسوں سے بچانے اور انہیں راحت و سکون پہچانے کے لیے نکاح کی نعمت عطا فرمائی تاکہ مرد و عورت نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر خود کو گناہوں سے بچائیں اس خوبصورت رشتے کی اہمیت و حفاظت کے پیش نظر اللہ پاک نے شوہر اور بیوی کے حقوق متعین کردئیے ہیں انہی حقوق میں سے شوہر کے کچھ حقوق ذکر کیے جائیں گے۔

(1) اللہ پاک کے علاوہ سجدے کا حکم: اللہ پاک اور اس کے آخری نبی حضور عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے بعد عورت پر جس ذات کی اطاعت اور فرمانبرداری لازم ہے وہ اُس کا شوہر ہے۔چنانچہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا۔ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع باب ماجاء فی حق الزوج 386/2 حدیث: 1163)

شرح: مشہور مفسر قرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے اس لئے شوہر ہی اُس کے سجدے کا مستحق ہوتا۔شوہر کی اطاعت و تعظیم بہت ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے ۔(مراٰۃ المناجیح، 5/97)

(2) شوہر کا بیوی پر حق: پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کی: شوہر کا حق اُس کی بیوی پر کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہ بیوی اپنے شوہر کو خود سے نہ روکے اگر چہ اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہو اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر کی کوئی چیز کسی کو نہ دے، اگر دے گی تو شوہر کے لئے ثواب اور عورت کیلئے گناہ ہے اور اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے اگر ایسا کیا تو گناہ گار ہو گی اور کچھ ثواب نہ ملے گا نیز شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اگر نکلی تو جب تک توبہ نہ کرے یا واپس نہ آ جائے رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔عرض کی گئی: اگر چہ شوہر ظالم ہو؟ فرمایا: اگر چہ وہ ظالم ہو۔(سنن کبرى للبیہقی، كتاب القسم والنشوز باب ماجاء فی بيان حقہ عليها، 477/7، حدیث: 14713)

(3) فورا حاضر ہو:جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس چلی آئے اگرچہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو۔(ترمذی، کتاب الرضاع،باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأة ،386/2، حدیث: 1163)

(4) پوری رات لعنت: شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو جاے تو رات بھر اس عورت کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعها من فراش زوجہا، ص 578، حدیث 3541)

(5) شوہر کے لیے سنورنا باعث اجر ہے: امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں عورت کا اپنے شوہر کے لیے زیور پہننا، بناؤ سنگھار کرنا باعثِ اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ 22/126)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک اور اس کے آخری نبی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے طریقے پر بیوی کو اپنے شوہر کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارا دین اسلام جہاں حقوق الله یعنی نماز روزہ حج وغیرہ بجالانے کا حکم دیتا و ہی حقوق العباد کو بجا لانے پر اجرو ثواب اور سستی کرنے پر زجر و تو بیچ کے ذریعے ترغیب دلاتا ہے شریعت محمدیہ میں معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کا بیان ہے ان میں سے شوہر کے حقوق کو بھی بہت اہمیت دی گئی جس طرح کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا : اگر خاوند کی چوٹی سے ایڑی تک پیپ ہو اور وہ(بیوی)اسے چاٹے تو خاوند کاحق ادا نہیں کر پائے گی(مستدرك للحاكم، كتاب النكاح، ٥٤٧/٢، الحديث ۳۸۲۲،۲۸۲۱ و مصنف ابن ابی شيبة، ما حق الزوج على امراتہ،٣٩٧/٣)

آئیے ان میں سے چندحقوق کا مطالعہ کرتے ہیں۔

(1) شوہر کو راضی رکھنا: بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی ناراضگی سے بچے اور اسے ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ اس میں عورت کے لیے بڑا اجرو ثواب ہے جس طرح کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو وہ جنت میں جائے گی ( ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق زوج على المراة، 386/2 الحدیث: 1164)

(2)بلا اجازت شوہر گھر سے نہ نکلنا: عورت کو چاہیے کہ بغیر اجازت شوہر گھر سے نہ نکلے بغیر اجازت کے نکلنے کے حوالے سے حضور علیہ السّلام نے فرمایا اگر گھر سے (بیوی) خاوند کی اجازت کے بغیر نکلی تو جب تک واپس نہ ہو یا توبہ نہ کرے، فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(مسند ابی، یعلی 438/2 ،الحديث: 2449 دون ذكر الصوم)

(3)بغیر اجازت شوہر کے نفلی روزے نہ رکھنا: بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بلا اجازت شوہر نفلی روزے نہ رکھے کیونکہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا بیوی پر یہ بھی حق ہے۔کہ خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے اگر اس نے ایسا کیا تو وہ بھوکی پیاسی رہی اور اس کا روزہ قبول نہیں۔ (المرجع السابق)

(4) شوہر کی اطاعت کرنا: بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی اطاعت کرتی رہے وگرنہ نافرمانی کرنے کا بڑا سخت عذاب ہےحضور علیہ السّلام نے جہنم میں عورتوں کی کثرت کی وجہ خاوند کی نا فرمانی بھی ارشاد فرمائی۔(سنن الکبری للنسائی،کتاب عشرہ النساء باب ما ذ کر فی النساءَ ۳۹۸/۵الحدیث ۹۲۵۶)

5)بلا اجازت شوہر کسی کو کوئی چیز نہ دینا: عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی چیز نہ دے جس طرح کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا (بیوی) شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے کسی کو کوئی چیز نہ دے اگر اس نے ایسا کیا تو گناہ گار ہو گی جبکہ شوہر کو ثواب ملے گا۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی، الحدیث: ۱۹۵۱،ص ۲۶۳)


اسلام دین فطرت ہے اور اس کے احکامات میں انسانی فطرت کی رعایت رکھی گئی ہے، اسلام فطری تقاضوں کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کے حصول کیلئے جائز ذرائع مہیا کرتا ہے اسی لئے اللہ پاک نے انسانوں کو بدکاری، بے حیائی، جنسی بے راہ روی اور شیطانی وساوس سے بچانے نیز انہیں راحت وسکون پہنچانے کے لئے نکاح کی نعمت عطا فرمائی تا کہ عورتیں اور مرد نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر خود کو گناہوں سے بچائیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کر دار ادا کریں۔اس خوبصورت رشتے کی اہمیت و حفاظت کے پیش نظر اللہ پاک نے میاں بیوی کے حقوق متعین کر دیئے تاکہ ان کے تعلق کی دیوار میں کہیں دراڑ نہ پڑے اور اس کی حفاظت ہوتی رہے۔جو لوگ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتے ہیں وہی لوگ اس رشتے کو بخوبی نبہا سکتے ہیں۔

نیک سیرت اور مثالی بیوی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے شوہر کے حسانات کی شکر گزار رہتی ہے اور کبھی اس کے احسانات کا انکار کر کے ناشکری نہیں کرتی وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ شوہر مجھ جیسی صنف نازک کیلئے ایک مضبوط سہارا اور الله پاک کی نعمت ہے، وہی میری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اُسی کی وجہ سے مجھے اولاد کی نعمت ملی ہے۔رحمت عالم نور مجسم صلی آلہ علیہ والہ وسلم نے عورتوں کو اپنے شوہروں کے حقوق پورے کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔چنانچہ

شوہر کے حقوق سے متعلق 4 فرامینِ مصطفیٰ پڑھئے:

(1) بیوی پر لازم : جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس چلی آئے اگر چہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق الزوج على المرأة،2/386حدیث:1163)

(2) فرشتوں کی لعنت : شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے اور اُس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو جائے تو رات بھر اُس عورت کے فرشتے اُس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعها من فراش زوجها، ص 578، حدیث: 3561)

(3)اہم باتیں : پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلى الله علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کی: شوہر کا حق اس کی بیوی پر کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہ بیوی اپنے شوہر کو خود سے نہ روکے اگر چہ اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہو اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر کی کوئی چیز کسی کو نہ دے، اگر دے گی تو شوہر کے لئے ثواب اور عورت کیلئے گناہ ہے اور اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے اگر ایسا کیا تو گناہ گار ہو گی اور کچھ ثواب نہ ملے گا نیز شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اگر نکلی تو جب تک توبہ نہ کرے یا واپس نہ آ جائے رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔عرض کی گئی: اگر چہ شوہر ظالم ہو؟ فرمایا: اگر چہ وہ ظالم ہو۔(سنن کبری للبیہقی کتاب باب القسم والتشوق، ماجاء فی بيان حقہ عليها،7/477، حدیث: 14713)

(4) اللہ سے ڈرو: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح اور شام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔(كنز العمال، كتاب النكاح الباب الخامس فی حقوق الزوجين، جز: 2، 16/145، حدیث: 44809)

اللہ پاک ہمیں اپنے شوہروں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے محترم بنایا ہے اور اسے زندگی بسر کرنے کا سیدھا راستہ بھی دیکھایا ہے۔ اس راستے پر چل کر انسان ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ فرشتے بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے والا انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کا نائب ہے اور یہ قابل رشک منصب کسی دوسری مخلوق کا مقدر نہیں بن سکا۔

اسلام کو اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے پسند فرمایا کہ یہ دین اس کے محبوب نبی پر اتارا گیا۔اسلام نے زندگی گزار نے کے ہر اس پہلو کو اجاگر کیا جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے انسان کو معلوم بھی نہیں تھیں۔اسلام نے تمام رشتوں کے حقوق و فرائض سے متعلق انسان کو آگاہ کیا ہے۔

نبی کریم کی پوری زندگی ہمارے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس پر عمل کر کے ہم اپنی زندگی میں وہ خوشگوا را حساس و سکون پیدا کر سکتے ہیں جس کا ہر انسان ہمیشہ سے متلاشی رہا ہے۔اس حوالے سے میاں بیوی کے حقوق وفرائض ایک دوسرے پر فرض کر دیئے گئے ہیں تا کہ اس خوبصورت رشتے کو برقرار رکھا جا سکے۔یہاں ہم شوہر کے حقوق و فرائض کا جائزہ لے رہے ہیں۔

کسی مسلمان شوہر کا پہلا حق اور اس کی بیوی کا شوہر کے لئے سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ ہر معاملے میں اپنے شوہر کی اطاعت و فرماں برداری کرے۔لیکن اگر شوہر اپنی بیوی کو خلاف شریعت کوئی کام کرنے کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرے ۔بلکہ اس معاملے میں وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کر۔

حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا: عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر اس کی ماں کا ہے۔ایک اور جگہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: اگر غیر اللہ کے لئے سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جو عورت اللہ کی اطاعت کرے، شوہر کے حقوق ادا کرے، اسے نیک بنانے کی کوشش کرے، اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے تو اس کے اور شہیدوں کے درمیان جنت میں ایک درجہ کا فرق ہو گا۔ شوہر کی اطاعت کے حوالے سے رسول کریم نے یہ فرمایا ہے کہ وہ عورت جو پنج وقتہ نماز ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، اپنی عزت کی حفاظت اور شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے ۔

جنت میں ایک درجے کا فاصلہ ہوگا۔ اگر اس کا شوہر ایمان والا اور نیک ہو گا تو وہ جنت میں بھی اس کی بیوی بنے گی ور نہ شہداء میں سے کوئی اس کا شوہر ہوگا۔رسول اکرم فرماتے ہیں: شوہر کا اپنی بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے باہر نہ جائے ۔

شوہر کا دوسرا حق اور اس کی بیوی کا دوسرا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے تمام گھر اور مال و متاع کی حفاظت کرے۔اس کے ساتھ اپنی اور اپنے شوہر کی عزت و آبرو اور نسبت کی بھی مکمل حفاظت کرے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے گھر، اس کے مال و متاع، اس کی عزت آبرو بلکہ ہر ایک چیز کی امانت کی طرح حفاظت کرتی ہیں۔(سورۃ الروم)

حدیث شریف میں ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے۔یعنی اس کے مال و متاع کی حفاظت عورت کی ذمہ داری ہے۔اکثر حالات میں عورت کے ذمہ کھانا پکانا واجب نہیں ہوتا لیکن شوہر کے گھر کی حفاظت اور اس کے مال و متاع کی اس طرح حفاظت کہ مال بے جا خرچ نہ ہو، اسلام نے یہ عورت کی ذمہ داری قرار دی ہے۔عورت پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ شوہر کی جملہ ضروریات کا مناسب خیال رکھے حتی کہ نفلی نمازوں اور روزوں میں بھی اس کی اجازت حاصل کرے کہ اس سے شوہر کو ایک حد تک تکلیف اور پریشانی ہو سکتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم نے فرمایا کہ کسی عورت کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں نفلی روزہ رکھے، مگر شوہر کی اجازت سے۔یعنی کسی عورت کے لئے نفلی روزہ رکھنا شوہر کی اجازت کے بغیر حلال نہیں۔البتہ شوہر کو چاہیے کہ وہ بلا وجہ بیوی کو نفلی روزہ سے منع نہ کرے۔اللہ اور اللہ کے رسول نے شوہر کی اطاعت کو تمام نفلی عبادتوں پر فوقیت عطا فرمائی ہے۔لہٰذا جو ثواب اس عورت کو روزہ رکھ کر ملتا، اب شوہر کی اطاعت کر سے زیادہ ثواب ملے گا اور وہ عورت یہ نہ سمجھے کہ وہ روزہ سے محروم ہو گئی۔اس لئے وہ یہ سوچے کہ روزہ کس لئے رکھ رہی تھی؟ روزہ تو اس لئے رکھ رہی تھی کہ ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ راضی ہوں گا ۔لیکن اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا۔جب تک تیرا شوہر تجھ سے راضی نہیں ہو گا۔اس لئے جو ثواب عورت کو روزہ رکھ کر ملتا، وہی ثواب اسے شوہر کی اطاعت کے بعد بھی ملے گا۔

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: رمضان کے مہینے میں مجبوری کی وجہ سے جو روزے مجھ سے قضا ہو جاتے میں عام طور پر ان روزوں کو آنے والے شعبان کے مہینے میں رکھا کرتی تھی کہ شعبان میں حضو را کرم بھی کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔لہٰذا اگر اس زمانے میں، میں بھی روزے سے ہوں گی اور آپ بھی روزے سے ہوں تو یہ صورت زیادہ بہتر ہے یہ نسبت اس کے کہ میں روزہ سے ہوں اور آپ کا روزہ نہ ہو۔(ترمذی شریف)

فطری خواہش کی تکمیل پر بالکل صریح حدیث موجود ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان پر بھی اجر عطا فر ماتا ہے ۔صحابہ کرام نے سوال کیا کہ: یا رسول اللہ! وہ تو انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے۔اس پر کیا اجر؟ آپ نے فرمایا: اگر وہ ان نفسانی خواہشات کو نا جائز طریقے سے پورا کرتے تو اس پر گناہ ہوتا یا نہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا۔یا رسول اللہ! گناہ ضرور ہوتا۔آپ نے فرمایا: جب میاں بیوی نا جائز طریقے کو چھوڑ کر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو میری وجہ سے اور میرے حکم سے کر رہے ہیں۔اس لئے اس پر بھی ثواب ہے ۔(مسند احمد بن خلیل جلد 5، 169167)

عورت کے حقوق اتنے بیان کئے گئے اور ان کے حقوق کا لحاظ کیا گیا۔اس کا منشا در حقیقت یہ ہے کہ عورت اور ان کے شوہر کے درمیان تعلق درست ہو جائے اور اس تعلق کی درستی کا ایک لازمی حصہ یہ ہے کہ بیوی کے ذریعے شوہر کو عقت حاصل ہو، پاک دامنی حاصل ہو۔نکاح کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ پاک دامنی حاصل ہو اور شوہر کو کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔

دوسری روایت میں فرمایا: اگر کوئی عورت جان بوجھ کر اپنے شوہر کا بستر چھوڑ کر رات گزارے تو اس کو فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ صبح ہو جائے ۔ان تمام معاملات کی نبی اکرم نے تفصیل کے ساتھ ایک ایک چیز بیان فرمادی ہے۔اس لئے کہ یہی چیز میں جھگڑااور فساد کا باعث ہوتی ہیں۔

بعض عورتوں کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات ایک دنیاوی قسم کا معاملہ ہے اور یہ صرف نفسانی خواہشات کی تکمیل کا معاملہ ہے ایسا ہر گز نہیں ہے۔بلکہ یہ دینی معاملہ بھی ہے اس لئے کہ اگر عورت یہ نیت کرلے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ جو فریضہ عائد کیا ہے اور اس تعلق کا مقصد شوہر کو خوش کرنا ہے اور شوہر کو خوش کرنے کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے تو پھر یہ سارا عمل ثواب بن جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد کو سربراہ بنایا ہے اس لئے معاملات میں فیصلہ شوہر کا ماننا ہو گا۔البتہ بیوی اپنی رائے اور مشورہ دے سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد کو یہ ہدایت بھی دے رکھی ہے کہ وہ حتی الامکان بیوی کی خوشنودی کا خیال رکھے۔لیکن فیصلہ مرد کا ہو گا۔اگر بیوی یہ چاہے کہ ہر معاملے میں فیصلہ اس کا ہو اور وہ سربراہ بن جائے تو یہ فطرت کے خلاف ہے۔اور اس کا نتیجہ گھر کی بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں توازن رکھا ہوا ہے اگر انسان اس توازن میں خرابی پیدا کرنے کی خواہش کرتا ہے تو تباہی یقینی ہے۔


اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت اور فضیلت دی اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد عورت سے پیدائشی طور پر قوی ہے زیادہ ذہنی قوت کا مالک ہے عورت کی نسبت زیادہ انتظامی صلاحیتیں رکھتا ہے اپنے آپکو محنت مشقت میں ڈال کر مال کما کر عورت پر خرچ کرتا ہے ان خوبیوں کی بنا پر مرد کو عورت پر فضیلت حاصل لہٰذا اچھی بیوی وہ ہوتی ہے جو خاوند کی فرما ں بردار ہو زندگی کے معاملات میں بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپکے خاوند کا ہر جائز کہنا مانےعورت نے گھریلو طور پر بہت سارے کام سرانجام دینے ہوتے ہیں جن کا تعلق خاوند کی معاشی حیثیت کے ساتھ ہوتا ہے اگر عورت اپنے خاوند فرمانبرداری نہیں کرے گی بلکہ اپنی نا جائز باتیں خاوند سے منوانے گی تو گھر کا نظام درہم برہم ہوتا جائے گا اس لیے شریعت نے بنیادی طور پر عورت کے فرائض میں جو بات شامل کی ہے وہ خاوند کی فرمانبرداری ہراس کے بارے میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد گرامی ہے۔

عن انس قال قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم المرءتہ اذا صلت فمیتتھا وصامت شھرہا واحصنت فرجہا واطاعت بعلہا فلتدخل من ای ابواب الجنتہ شآءت ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ عورت جب پانچوں نمازیں پڑہے رمضان لمبائی کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھے یعنی اپنے نفس کو محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کی ان باتوں میں فرمانبرداری کرے جن کی فرمانبرداری شریعت نے اس پر لازم کی ہے تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے اور ایک اور حدیث میں پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

اس حدیث میں شوہر کے حقوق کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے اور شرک بھی ہے اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرےاس سے شوہر کے حقوق کا خصوصی دھیان رکھنے کی تاکید مقصود ہے۔


شادی کے ذریعے میاں بیوی زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے رفیق سفر بن جاتے ہیں اور چونکہ یہ سفر طویل ہے تو ان کی رفاقت بھی طویل ہی ہوتی ہے شاید اسی لئے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا رفیق حیات یعنی زندگی بھر کا ساتھی کہا جاتا ہے۔اس طویل سفر میں زندگی کو خوشگوار گزارنے کیلئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حقوق کے بارے میں معلومات ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس معلومات کی روشنی میں اپنے رفیق حیات کے حقوق کا خیال رکھے۔عموماً ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرنے اور ایک دوسرے کو اہمیت نہ دینے ہی کی وجہ سے باہم ناچاقیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔جو میاں بیوی میں فاصلوں اور دوریوں کو بڑہانے کا سبب بنتی ہیں۔دین اسلام میں میاں بیوی کے حقوق کو بہت اہمیت حاصل ہے کثیر احادیث میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔آئیے! بیوی پر شوہر کے حقوق کی اہمیت کے بارے میں احادیث مبارکہ ملا حظہ کیجئے:

اُم المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا۔عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا حق میں نے پوچھا مرد پر سب بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اُس کی ماں کا حق۔(مستدرک، حدیث: 7418)

پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خاوند کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے اسی لیے خاوند ہی اس کے سجدے کا مستحق ہوتا۔(مرقات)اس سے معلوم ہوا کہ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے ،(مرآۃ المناجیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:5 حدیث نمبر:3255)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عورت جب تک شور کا حق ادا نہ کرے وہ ایمان کی مٹہاس حاصل نہیں کر سکتی۔(معجم کبیر، ۵۳/۲۰، حدیث: ۹)

حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ اپنی پھوپھی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی کام سے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کی حاجت پوری فرما چکے تو ارشاد فرمایا: کیا تم شوہر والی والی (یعنی شادی شدہ) ہو؟ نے عرض کی جی ہاں۔فرمایا۔تم (خدمت کے اعتبار سے) شوہر کیلئے کیسی ہو؟ عرض کی جو کام میرے بس میں نہ ہو اُس کے علاوہ میں اُن کی خدمت میں کوتاہی نہیں کرتی۔ارشاد فرمایا: اس بارے میں غور کر لینا کہ شوہر کے اعتبار سے تمہارا کیا مقام ہے کیونکہ وہی تمہاری جنت اور دوزخ ہے۔(سن الكبرى للنسائی، حدیث: ۸۹۶۳)

مزید اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں کہ بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا، (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹہویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)

شوہر کے حقوق کی پاسداری کے فضائل :حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو عورت مر جائے اس حال میں کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہوا تو جنت میں جائے گی ۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں خاوند سے مراد مسلمان عالم متقی خاوند ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد:5 حدیث نمبر:3256)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہ رمضان کا روزہ رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے۔(ابونعیم ،حلیہ)

حکیم الامت مفتی احمد یار نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ یہاں شرمگاہ کی حفاظت سے مراد ہے کہ زنا اور اسباب زنا سے بچے بے پردگی گانا ناچنا وغیرہ حرام کام کے اسباب بھی حرام ہیں ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:5 حدیث نمبر:3254)

اللہ پاک تمام بیویوں کو اپنے شوہروں کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


شادی کے بعدزندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے انہیں ایک دوسرے کا خیرخواہ، ہمدرد، بات کو سمجھنے والا، جاننے والا، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہئے۔کسی ایک کی سُسْتی و لاپرواہی اور نادانی گھرکا سکون برباد کرسکتی ہے۔عورت پر سب سے بڑا حق اس کےشوہرکاہے یعنی ماں باپ سے بھی زیادہ اور مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے یعنی زو جہ کا حق اس سے بلکہ باپ سے بھی کم۔اللہ پاک فرماتا ہے :

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔(پ5،النسآء:34)

بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا، (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا(9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)

احادیث مبارکہ میں بھی شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

(1) اَیُّمَا اِمْرَأَۃٍ مَّاتَتْ وَزَوْجُہا عَنْہا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃیعنی جس عورت کا اس حال میں انتقال ہوا کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔(سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاء فی حق الزوجالخ،۳۸۶/۲، الحديث:۱۱۶۴)

(2) مروی ہے کہ ایک شخص نے سفر پر روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی سے عہد لیا کہ وہ اوپر والی منزل سے نیچے نہیں اترے گی، نچلی منزل میں عورت کا باپ رہتا تھا، وہ بیمار ہوا تو عورت نے بارگاہِ رسالت میں پیغام بھیج کر باپ کے پاس جانے کی اجازت چاہی تورسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشادفرمایا:اپنے شوہر کی اطاعت کر۔چنانچہ، باپ کا انتقال ہوگیا، اس نے پھر اجازت طلب کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےیہی فرمایا کہ’’اپنے شوہر کی اطاعت کر۔‘‘جب اس کے باپ کو دفنا دیا گیا تو حضور نبیّ رحمت،شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس عورت کی طرف پیغام بھیجا کہ’’تمہارے اپنے شوہر کی اطاعت کرنے کے سبب اللہ پاک نے تمہارے والد کی مغفرت فرما دی ہے۔(المعجم الاوسط،۳۷۲/۵،الحديث:۷۶۴۸)

(3) اِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسَہَا وَصَامَتْ شَہْرَہَا وَحَفِظَتْ فَرْجَہَا وَاَطَاعَتْ زَوْجَہَا دَخَلَتْ جَنَّۃَ رَبِّہَایعنی اگرعورت(پاپندی سے)پانچوں نمازیں پڑہے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ اپنے ربّ پاک کی جنت میں داخل ہو گی۔(المسندللامام احمدبن حنبل،حديث عبد الرحمن بن عوف الزهری،۴۰۶/۱،الحديث:۱۶۶۱،بتغيرقليل)اس روایت کے مطابق خاوند کی اطاعت اسلام کے بنیادی امور میں سے ہے۔

(4) حُسنِ اَخلاق کے پیکر، محبوبِ رَبِّ اَکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔(جامع الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاء فی حق الزوج علی المراۃ،الحدیث: ۱۱۶۱،ص۱۷۶۵۔)

(5) خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب عورت پانچ وقت نماز پڑھے ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گی داخل ہو جائے گی۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،کتاب النکاح، باب معاشرۃ الزوجین، الحدیث:۴۱۵۱،ج۶،ص۱۸۴)


دین اسلام کی یہ خوبصورتی ہے کہ اسلام نے ہر ایک کے حقوق کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے جہاں اسلام نے والدین کے بہن بھائیوں کے اساتذہ کے حقوق کو بیان کیا وہیں ایک عورت کے لئے اس کی زندگی میں اس کے شوہر کا کیا حق ہے ان حقوق کو بھی بڑے احسن انداز میں بیان کیا ،اس طرح کے کئی حقوق ہیں جنہیں اللہ پاک نے خود قرآن کریم میں بیان کر کے شوہر کی تعظیم اور عظمت کو واضح کر دیا ہے۔

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤاور انہیں مار و ۔(پ5،النسآء:34)

شوہر کے حقوق درج ذیل ہیں:

(1) پہلا حق یہ کہ شوہر کو اپنی ازدواجی تعلقات کو قائم کرنے سے نا روکنا یہ بھی شوہر کا حق ہے جس کی تائید ہمیں پیارے آقا صَلَّی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے ملتی ہے کہ میرے آقا نے ارشاد فرمایا جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آ جائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی،ج2،ص386، حدیث: 1163)

تو یہ حق ہمیں حدیث سے ملتا ہے کہ چاہے بیوی کتنا ہی مصروف کیوں نا ہو اگر شوہر اسے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ تمام کام چھوڑ کر شوہر کے حکم کی تعمیل کرے ۔

(2) دوسرا حق شوہر کا یہ ہے کہ بیوی ہمیشہ شوہر سے راضی رہے اور اس بات کا خیال رکھے کہ شوہر میری کسی وجہ سے ناراض نا ہو اور میرا ایسا رویہ نا ہو کہ جس سے شوہر کی دل آزاری ہو اس کی تائید میں میرے آقا نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمان ہے کہ میرے آقا نے ارشاد فرمایا جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی ۔ (ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1164)

تو ان احکام الٰہی اور رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کرتے ہوئے ہر عورت کو چاہئے اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرے ہر اس کام کی جسے شریعت نے منع نا کیا ہو تعمیل کرے۔

اسی طرح سے میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بڑی پیاری بات فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرمائی کہ عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج22،ص126)

تو یہاں سے عورت کو ایک بات سمجھنی چاہئے کہ عورت کا سجنا صرف اور صرف اپنے شوہر کے لئے ہونا چاہئے اور اسے دل میں یہ نیت کرنی چاہئے کہ میرے اس عمل سے میرا شوہر راضی ہوگا جب عورت اپنے شوہر کے دل میں خوشی داخل کرنے کی نیت سے یہ تمام کام بجالائی گی تو یقیناً اسے نفل نماز پڑھنے سے بھی زیادہ اجر ملے گا ۔

آخر میں ایک نصیحت عقل مند عورت اپنے شوہر کو بادشاہ بنا کر اس کی ملکہ بن کر راج کرتی ہے اور جب کہ کم عقل عورت اپنے شوہر کو غلام بنا کر ایک غلام کی بیوی بن کر زندگی گزار دیتی ہے

خلاصہ: اگر عورت ان تمام امور کو اپنا کر شوہر کی عزت کرے اور شوہر کے تمام حقوق ادا کرے تو زوجین کی زندگی گلاب کی طرح مہک اٹھے گی اللہ پاک ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔


اﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور ان کی خوشحال زندگی کے لیے جوڑے بنائے ،دنیا میں عظیم ترین جوڑا مرد اور عورت کا ہے۔جو نکاح کے بندھن سے جُڑ جانے کے بعد شوہر اور بیوی کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔جس طرح ا ﷲ تبارک‌وتعالیٰ نے ہر جوڑے کے دوسرے جوڑے پر حقوق رکھے ہیں اسی طرح بیوی پر بھی شوہر کے حقوق کو برتری دی ہے۔ہم اس ضمن میں شوہر کے حقوق بیان کریں گے۔قرآن میں ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر۔(پ5،النسآء:34)

(1) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1164)

(2) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گاکہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔(مسند امام احمد،ج 1،ص406، حدیث: 1661)

(3) معلّمِ انسانیت صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آ جائے اگرچہ تنّور پر ہو۔(ترمذی،ج2،ص386، حدیث: 1163)

(4) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضے قدرت میں میری جان ہے کوئی شخص اپنی عورت کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو آسمان والی ذات(اللہ تبارک و تعالیٰ)اس عورت سے اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک خاوند اس سے راضی نہ ہو جائے ۔(ریاض الصالحین، باب حق الزوج علی المرأۃ)

(5) نبیِّ برحق صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری،ج3،ص463، حدیث:5197، ملتقطاً)

شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر کثیر حقوق ہیں مگر طاقت سے باہر نہیں تاکہ یہ دونوں بآسانی ادا کریں اور کل قیامت کے روز ایک دوسرے کے حقوق میں گرفتار نہ ہوں۔اسی طرح بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی رضا مندی کو ملحوظ رکھے اور اس کے حقوق کو پورا کرے۔ اللّہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی عمل خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا کی تخلیق فرمائی پھر اس کو آباد کرنے کے لیے مختلف مخلوقات پیدا فرمائی اور اس میں تمام مخلوقات کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیائے کرام ورسولوں کو بھیجا اور سب سے سے آخری نبی محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت پیارے دین،دینِ اسلام کےساتھ مبعوث فرمایا اور اس دین میں ہر کسی کے حقوق کا خیال بھی رکھا گیا ہے حتی کہ جانوروں کے حقوق، پرندوں کے حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں اور انسانی تعلقات میں جو رشتہ آتے ہیں ان کے بھی حقوق بیان کئے گئے ہیں جیسے اولاد پر ماں باپ کے حقوق ماں باپ پر اولاد کے حقوق، پڑوسی کے حقوق رشتہ داروں کے حقوق، بہن بھائیوں کے حقوق اور حتی کے مصاہرت (سسرالی رشتوں) کے حقوق بھی اسلام ہمیں بیان فرماتا ہے اور سب سے اچھے اور پاکیزہ رشتہ میاں بیوی کے رشتہ کے حقوق جیسے شوہر پر بیوی کے حقوق اور بیوی پر شوہر کے حقوق بھی اسلام ہمیں بیان کرتا ہے۔میاں بیوی کے رشتہ کے متعلق اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءًۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادئیے۔(پ4، النسآء:1)

سبحان الله! جب قرآن پاک میں اس پاکیزہ رشتہ کا ذکر آیا ہے اور ہمارا دین اسلام ہر ایک کے حقوق بھی بیان فرماتا ہے اور شوہر کے حقوق بیوی پر بہت زیادہ ہیں اگر ہر عورت ان حقوق کی بجا آوری کے لئے کوشش کریں تو ہمارے معاشرے میں طلاق کا کوئی کیسی ظاہر نہ ہوگا بیوی پر شوہر کے حقوق کے بارے میں کثیر احادیث وارد ہیں۔ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو عورت مر جائے اس حال میں کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو تو جنت میں جائے گی۔ (سنن ترمذی، کتاب النکاح، ج 2)

الله اکبر! شوہر کا کیا اعلی مرتبہ ہے کہ اگر وہ راضی تواس کی بیوی جنت میں جائے گی اس سے ان عورتوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیئے جو عورتیں اپنے خاوند کو راضی نہیں رکھتی اور بےجا تکلیفیں دیتی ہیں۔اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یا خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مراۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح میں فرماتے ہیں کہ عورت مرتے ہی روحانی طور پر یا بعد قیامت جسمانی طور پر جنت میں جائے گی کیونکہ اس نے اللہ کے حقوق بھی ادا کئے اور بندے کے حقوق بھی۔(مراٰة المناجيح ،ج5 ، ص112)

ایک اور حدیث پاک میں یوں ارشاد ہوا: پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

یاد رہے کہ ہماری شریعت میں غیر خدا کو سجدہ حرام ہے۔سجدہ ٔ عبادت کفر ہے اور سجدہ تعظیمی حرام دوسری شریعتوں میں بندوں کو سجدہ تعظیمی جائز تھا اس سے یہ معلوم ہوا کہ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز کا تعظیم کی جائے۔ (مراٰۃ المناجيح، ج5 ،ص111)

اور غور کیا جائے حدیث مبارکہ میں تو اس میں ضرور کے الفاظ ہیں اس سے شوہر کی تعظیم اور پختہ ہو رہی ہےاس کے علاوہ بھی بیوی پر شوہر کے بے شمار حقوق ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں ۔

(1) جس جائز کام کا حکم دے اس کو فوراً بجا لانا (اگر کوئی شرعی مجبوری نہ ہو)

(2) ہر جائز بات میں میں اطاعت کرنا۔

(3) شوہر کے مال و اولاد کی حفاظت کرنا ۔

(4) شوہر سے اس کی استطاعت کے مطابق خواہشات کرنا۔

(5) شوہر کی حاجت کو فوراً پورا کر دینا ۔

(6) بغیر اجازت شوہر کوئی کام نہ کرنا۔

(7) شوہر کے لیے بناؤ سنگار کرنا۔

(8) شوہر کو ہمیشہ خوش رکھنا۔

(9) شوہر سے منسلک تمام رشتوں کا احترام کرنا۔

(10) شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلنا۔

(11) شوہر کے ہر جائز کام میں جس کی استطاعت رکھتی ہو اس کی مدد کرنا۔

اگر یہ سب حقوق ہمارے معاشرے میں قائم ہو جائیں تو ہمارے معاشرے کا ہر گھر امن کا گہوارہ ہوگا اور طلاق کی تعداد بھی کم ہو گی اور ہر بیٹی کے ماں باپ امن و سکون کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر سکیں گے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر کسی کے حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الکریم