محمد
زین عطّاری (درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور،
پاکستان)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے محترم بنایا
ہے اور اسے زندگی بسر کرنے کا سیدھا راستہ بھی دیکھایا ہے۔ اس راستے پر چل کر
انسان ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ فرشتے بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے اللہ
تعالیٰ کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے والا انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کا نائب ہے اور یہ
قابل رشک منصب کسی دوسری مخلوق کا مقدر نہیں بن سکا۔
اسلام کو اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے پسند فرمایا کہ یہ دین
اس کے محبوب نبی پر اتارا گیا۔اسلام نے زندگی گزار نے کے ہر اس پہلو کو اجاگر کیا
جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے انسان کو معلوم بھی نہیں تھیں۔اسلام نے تمام
رشتوں کے حقوق و فرائض سے متعلق انسان کو آگاہ کیا ہے۔
نبی کریم کی پوری زندگی ہمارے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس
پر عمل کر کے ہم اپنی زندگی میں وہ خوشگوا را حساس و سکون پیدا کر سکتے ہیں جس کا
ہر انسان ہمیشہ سے متلاشی رہا ہے۔اس حوالے سے میاں بیوی کے حقوق وفرائض ایک دوسرے
پر فرض کر دیئے گئے ہیں تا کہ اس خوبصورت رشتے کو برقرار رکھا جا سکے۔یہاں ہم شوہر
کے حقوق و فرائض کا جائزہ لے رہے ہیں۔
کسی مسلمان شوہر کا پہلا حق اور اس کی بیوی کا شوہر کے لئے
سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ ہر معاملے میں اپنے شوہر کی اطاعت و فرماں برداری کرے۔لیکن
اگر شوہر اپنی بیوی کو خلاف شریعت کوئی کام کرنے کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرے ۔بلکہ
اس معاملے میں وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کر۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا:
عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر اس کی ماں کا ہے۔ایک اور جگہ
نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: اگر غیر اللہ کے لئے سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم
دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جو عورت اللہ کی
اطاعت کرے، شوہر کے حقوق ادا کرے، اسے نیک بنانے کی کوشش کرے، اپنی عصمت کی حفاظت
کرے اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے تو اس کے اور شہیدوں کے درمیان جنت میں ایک
درجہ کا فرق ہو گا۔ شوہر کی اطاعت کے حوالے سے رسول کریم نے یہ فرمایا ہے کہ وہ
عورت جو پنج وقتہ نماز ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، اپنی عزت کی حفاظت
اور شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے ۔
جنت میں ایک درجے کا فاصلہ ہوگا۔ اگر اس کا شوہر ایمان
والا اور نیک ہو گا تو وہ جنت میں بھی اس کی بیوی بنے گی ور نہ شہداء میں سے کوئی
اس کا شوہر ہوگا۔رسول اکرم فرماتے ہیں: شوہر کا اپنی بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ شوہر
کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے باہر نہ جائے ۔
شوہر کا دوسرا حق اور اس کی بیوی کا دوسرا سب سے بڑا فرض یہ
ہے کہ وہ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے تمام گھر اور مال و متاع کی حفاظت کرے۔اس
کے ساتھ اپنی اور اپنے شوہر کی عزت و آبرو اور نسبت کی بھی مکمل حفاظت کرے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی
میں اس کے گھر، اس کے مال و متاع، اس کی عزت آبرو بلکہ ہر ایک چیز کی امانت کی طرح
حفاظت کرتی ہیں۔(سورۃ الروم)
حدیث شریف میں ہے
کہ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے۔یعنی اس کے مال و متاع کی حفاظت عورت کی
ذمہ داری ہے۔اکثر حالات میں عورت کے ذمہ کھانا پکانا واجب نہیں ہوتا لیکن شوہر کے
گھر کی حفاظت اور اس کے مال و متاع کی اس طرح حفاظت کہ مال بے جا خرچ نہ ہو، اسلام
نے یہ عورت کی ذمہ داری قرار دی ہے۔عورت پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ شوہر کی جملہ ضروریات
کا مناسب خیال رکھے حتی کہ نفلی نمازوں اور روزوں میں بھی اس کی اجازت حاصل کرے کہ
اس سے شوہر کو ایک حد تک تکلیف اور پریشانی ہو سکتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم نے فرمایا کہ
کسی عورت کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں نفلی روزہ رکھے، مگر
شوہر کی اجازت سے۔یعنی کسی عورت کے لئے نفلی روزہ رکھنا شوہر کی اجازت کے بغیر
حلال نہیں۔البتہ شوہر کو چاہیے کہ وہ بلا وجہ بیوی کو نفلی روزہ سے منع نہ
کرے۔اللہ اور اللہ کے رسول نے شوہر کی اطاعت کو تمام نفلی عبادتوں پر فوقیت عطا
فرمائی ہے۔لہٰذا جو ثواب اس عورت کو روزہ رکھ کر ملتا، اب شوہر کی اطاعت کر سے زیادہ
ثواب ملے گا اور وہ عورت یہ نہ سمجھے کہ وہ روزہ سے محروم ہو گئی۔اس لئے وہ یہ
سوچے کہ روزہ کس لئے رکھ رہی تھی؟ روزہ تو اس لئے رکھ رہی تھی کہ ثواب ملے گا اور
اللہ تعالیٰ راضی ہوں گا ۔لیکن اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ میں
اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا۔جب تک تیرا شوہر تجھ سے راضی نہیں ہو گا۔اس لئے جو
ثواب عورت کو روزہ رکھ کر ملتا، وہی ثواب اسے شوہر کی اطاعت کے بعد بھی ملے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: رمضان کے مہینے میں مجبوری کی
وجہ سے جو روزے مجھ سے قضا ہو جاتے میں عام طور پر ان روزوں کو آنے والے شعبان کے
مہینے میں رکھا کرتی تھی کہ شعبان میں حضو را کرم بھی کثرت سے روزے رکھا کرتے
تھے۔لہٰذا اگر اس زمانے میں، میں بھی روزے سے ہوں گی اور آپ بھی روزے سے ہوں تو یہ
صورت زیادہ بہتر ہے یہ نسبت اس کے کہ میں روزہ سے ہوں اور آپ کا روزہ نہ ہو۔(ترمذی
شریف)
فطری خواہش کی تکمیل پر بالکل صریح حدیث موجود ہے کہ حضور
اکرم نے ارشاد فرمایا: میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان پر
بھی اجر عطا فر ماتا ہے ۔صحابہ کرام نے سوال کیا کہ: یا رسول اللہ! وہ تو انسان
اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے۔اس پر کیا اجر؟ آپ نے فرمایا: اگر وہ ان نفسانی
خواہشات کو نا جائز طریقے سے پورا کرتے تو اس پر گناہ ہوتا یا نہیں؟ صحابہ کرام نے
عرض کیا۔یا رسول اللہ! گناہ ضرور ہوتا۔آپ نے فرمایا: جب میاں بیوی نا جائز طریقے
کو چھوڑ کر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو میری وجہ سے اور میرے حکم سے کر رہے ہیں۔اس
لئے اس پر بھی ثواب ہے ۔(مسند احمد بن خلیل جلد 5، 169167)
عورت کے حقوق اتنے بیان کئے گئے اور ان کے حقوق کا لحاظ کیا
گیا۔اس کا منشا در حقیقت یہ ہے کہ عورت اور ان کے شوہر کے درمیان تعلق درست ہو
جائے اور اس تعلق کی درستی کا ایک لازمی حصہ یہ ہے کہ بیوی کے ذریعے شوہر کو عقت
حاصل ہو، پاک دامنی حاصل ہو۔نکاح کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ پاک دامنی حاصل ہو
اور شوہر کو کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔
دوسری روایت میں فرمایا: اگر کوئی عورت جان بوجھ کر اپنے
شوہر کا بستر چھوڑ کر رات گزارے تو اس کو فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ صبح
ہو جائے ۔ان تمام معاملات کی نبی اکرم نے تفصیل کے ساتھ ایک ایک چیز بیان فرمادی
ہے۔اس لئے کہ یہی چیز میں جھگڑااور فساد کا باعث ہوتی ہیں۔
بعض عورتوں کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے
تعلقات ایک دنیاوی قسم کا معاملہ ہے اور یہ صرف نفسانی خواہشات کی تکمیل کا معاملہ
ہے ایسا ہر گز نہیں ہے۔بلکہ یہ دینی معاملہ بھی ہے اس لئے کہ اگر عورت یہ نیت کرلے
کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ جو فریضہ عائد کیا ہے اور اس تعلق کا مقصد شوہر کو
خوش کرنا ہے اور شوہر کو خوش کرنے کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے تو پھر یہ
سارا عمل ثواب بن جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد کو سربراہ بنایا ہے اس لئے معاملات میں
فیصلہ شوہر کا ماننا ہو گا۔البتہ بیوی اپنی رائے اور مشورہ دے سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ
نے مرد کو یہ ہدایت بھی دے رکھی ہے کہ وہ حتی الامکان بیوی کی خوشنودی کا خیال رکھے۔لیکن فیصلہ مرد کا ہو گا۔اگر بیوی یہ چاہے کہ ہر
معاملے میں فیصلہ اس کا ہو اور وہ سربراہ بن جائے تو یہ فطرت کے خلاف ہے۔اور اس کا
نتیجہ گھر کی بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ہر
معاملے میں توازن رکھا ہوا ہے اگر انسان اس توازن میں خرابی پیدا کرنے کی خواہش
کرتا ہے تو تباہی یقینی ہے۔