آج کل میاں بیوی میں نا اتفاقی، بات بات پر لڑائی جھگڑے ایک عام سی بات ہے اور جب ایسے دو افراد میں نا اتفاقی پیدا ہو جائے جنہوں نے پوری زندگی ایک ساتھ ہی رہنا ہو تو پھر ان کی زندگی بہت تلخ اور نتائج نہایت سنگین ہو جاتے ہیں۔ آپس کی یہ نا اتفاقی نہ صرف دنیا کا امن و سکون تباہ دیر باد کر دیتی ہے بلکہ بسا اوقات تو دین و آخرت کی بربادی کا سبب بھی بن جاتی ہے، اس نا اتفاقی کا اثر نہ صرف میاں بیوی پر ہوتا ہے بلکہ ان کی اولاد اور اُن سے متعلقہ دیگر تمام لوگوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس نا اتفاقی کا سب سے بڑا سبب میاں بیوی کا ایک دوسرے کے حقوق کو نہ جاننا ہے، خصوصاً بیوی جب اپنے شوہر کی عزت عظمت کو نہیں سمجھتی تو بات بات پر لڑائی جھگڑے معمول بن جاتے ہیں عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے شوہروں کے حقوق کا تحفظ کریں اور شوہروں کو ناراض کر کے اللہ عزو جل کی ناراضگی کا وبال اپنے سرپہ نہ لیں کہ اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بربادی ہے۔

(1) ازدواجی تعلقات میں شوہر کی اطاعت کرنا: صحیحین کی روایت میں ہے، جب کوئی عورت اپنے شوہر کے بستر سے علیحدہ رات گزارے (یعنی شوہر کے بلانے پر نہ آئے)تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔(ریاض الصالحین، جِلد3، ص497 )

(2) شوہر کے لیے بننا سنورنا: شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے توگندے کپڑے،اُلجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے لئےبناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج22،ص126)

(3)گھر کی حفاظت کرنا: محمد بن علان شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عورت اپنے شوہر کے گھر کی چور اچکوں سے حفاظت کرے اور (گھر کے کھڑکی دروازے بند رکھ کر چوہے بلیوں جیسے دیگر نقصان پہنچانے والے جانوروں سے حفاظت کرے جو کہ گھروں میں گھس جاتے ہیں۔(ریاض الصالحین ،ص 505،جِلد 3)

(4) رضا طلب کرنا اور ناراضگی سے بچنا: حضرت سیدتنا اُم سلمہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلى الله تعالى علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو بھی عورت اس حال میں اس دنیا سے گئی کہ اُس کا شوہر اُس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔

امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: بیوی پر اپنے شوہر کی رضا طلب کرنا اور اُس کی ناراضی سے بچنا واجب ہے اور شوہر جب اُسے بلائے تو اسے منع نہ کرے کیونکہ رسول الله صلى الله تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جب شوہر اپنی زوجہ کو اپنے بستر پر بلائے تو وہ جائے اگر چہ تنور پر ہو۔(ریاض الصالحین،ج 3،ص512)

(5)نہ شکری سے بچنا: بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی قدر جانتے ہوئے شکر ادا کرے اور شوہر کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیساکہ نبی برحق صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ، وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری،ج3،ص463، حدیث:5197، ملتقطاً)


ہر شوہر بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند نیک بیوی کی شان یہ ہونی چاہیے کہ اس کے جذبات خیالات میں اس کے موافق ہونے کی پوری پوری کوشش کرے اور جو اللہ و رسول نے شوہر کے حقوق بیان کیے ہیں انکو پورا کرے تاکہ میاں بیوی کے درمیان پیار محبت اور اتفاق پیدا ہو جائے ۔

(1)شوہر کی اجازت لینا: طبرانی تمیم داری رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت پر شوہر کا حق یہ ہے کہ اس کے بچھونے کو نہ چھوڑے اور اس کی قسم کو سچا کرے اور بغیر اس کی اجازت کے باہر نہ جائے اور ایسے شخص کو مکان میں آنے نہ دے جس کا آنا شوہر کو پسند نہ ہو۔(المعجم الکبير، باب التاء، الحدیث: 1258،ج 2 ، ص 52)

(2)شوہر کو راضی رکھنا: ترمذی ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو عورت اس حال میں میری کہ شوہر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہوگی۔(جامع ترمذی، ابواب الرضاع، الحدیث : 1164، ج 2، ص 386)

(3)شوہر کی ناراضگی سے بچنا: بیہقی شعب الایمان میں جابر رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور انکی کوئی نیکی بلند نہیں ہوتی (1) بھاگا ہوا غلام جب تک اپنے آقاؤں کے پاس لوٹ نہ آئے اور اپنے کو ان کے قابو میں نہ دے دے (2) وہ عورت جس کا شوہر اس پر ناراض ہو (3) نشہ والا جب تک ہوش میں نہ آئے۔ (شعب الایمان، الحدیث 8727، ج 6، ص417)

(4) شوہر کو تکلیف نہ دینا: امام احمد و ترمذی و ابن ماجہ معاذ رضی اللہ عنہ سے راوی کہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حور عین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے اسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔(جامع ترمذی، ابواب الرضاع، الحدیث 177 ج2،ص392)

(5)شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنا: طبرانی میمونہ رضی اللہ عنہا سے راوی کہ فرمایا جو عورت خدا کی اطاعت کرے اور شوہر کا حق ادا کرے اور اسے نیک کام کی یاد دلائے اور اپنی عصمت اور اس کے مال میں خیانت نہ کرے تو اس کے اور شہیدوں کے درمیان جنت میں ایک درجہ کا فرق ہوگا پھر اس کا شوہر با ایمان نیک خو ہے تو جنت میں وہ اس کی بی بی ہے ورنہ شہداء میں سے کوئی اس کا شوہر ہوگا۔(المعجم الكبير، الحدیث 28، ج 24، ص 16)


پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں شوہر کے حق کے بارے میں حکم ارشاد فرمایا، شوہر کا حق اس اہمیت کا حامل ہے۔کہ عورت ایمان کا مزہ نہ پائے گی جب تک حق شوہر ادا نہ کرے جب کہ مرد کے عورت پر حقوق ہیں چاہیے کے عورت ان حقوق کو ادا کرے: عور توں پر لازم ہے کہ شوہر کہ حقوق کا تحفظ کریں اور شوہر کو ناراض کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا وبال اپنے سر پر نہ لیں کے اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بربادی ہے نہ دنیا میں سکون نہ آخرت میں راحت۔شوہر کی فرمانبرداری سے متعلق 3 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)عورت جب پانچوں نمازیں پڑہے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جا۔( مسند امام احمد، سند عبد الرحمن بن عوف، جلد1،صفحہ 406 ،حدیث:1661)

(2) ایک عورت نے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلَّى اللہ عَلیہ والہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عورتوں کی طرف سے نمائندہ بن کر حاضر ہوئی ہوں، اللہ پاک نے مردوں پر جہاد فرض فرمایا ہے اگر یہ زخمی ہوں تو اجر پائیں اور اگر شہید ہو جائیں تو اپنے رب کے پاس زندہ رہیں اور رزق دیئے جائیں اور ہم عورتیں ان کے گھر کی دیکھ بھال کرتی ہیں الہذ ا ہمارے لئے اس میں کیا اجر ہے؟ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم جس عورت سے بھی ملو تو اسے بتادو کہ شوہر کی فرمانبرداری کرنا اور اس کے حق کو پہچاننا جہاد کے برابر ہے اور تم میں سے بہت کم عورتیں ایسا کرتی ہیں۔(الترغيب والترهيب، كتاب النكاح، باب الزوج فی الوفاء بحق زوجتہ، جلد3،صفحہ34،حدیث:17)

(3)اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجالانا چاہئے۔(مسند امام احمد ،مسند السيدة عائشہ، جلد9، صفحہ353، حدیث:24525)

مشہور مفسر قرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یہ فرمان مبارک مُبالغے کے طور پر ہے۔سیاہ وسفید پہاڑ قریب قریب نہیں ہوتے بلکہ دُور دُور ہوتے ہیں مقصد یہ ہے کہ اگر خاوند (شریعت کے دائرے میں رہ کر) مشکل سے مشکل کام کا بھی حکم دے تب بھی بیوی اُسے کرے، کالے پہاڑ کا پتھر سفید پہاڑ پر پہنچانا سخت مشکل ہے کہ بھاری بوجھ لے کر سفر کرنا ہے۔(مراٰة المناجیح، جلد5/صفحہ 106)


خوشگوار اِزْدِواجی زندگی کافی حد تک اس بات پر موقوف ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حُقوق کے بارے میں کتنی معلومات ہے اور وہ اس معلومات کی روشنی میں کس حد تک اپنے رفیقِ حیات کے حُقوق کا خیال رکھتا ہے۔عموماً ایک دوسرے کے حُقوق ادا نہ کرنے اور ایک دوسرے کو اہمیَّت نہ دینے ہی کی وجہ سے باہم ناچاقیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو میاں بیوی میں فاصلوں اور دُوریوں کو بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔دينِ اسلام میں میاں بیوی کے حُقوق کو بہت اہمیَّت حاصل ہے، کثیر احادیث میں میاں بیوی کوایک دوسرے کےحُقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ: ’’جو عورت اس حال میں مری کہ شوہر راضی تھا، وہ جنت میں داخل ہوگی۔(جامع الترمذی ‘‘،ابواب الرضاع،باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ،الحدیث: ۱۱۶۴،ج ۲،ص ۳۸۶)

آئیے! اس موقع پر ہم بعض حدیثیں ذکر کریں جن سے شوہر کے حقوق کی معرفت حاصل ہو:

شوہر کو تکلیف نہ دے: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے،اِسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے،عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔(جامع الترمذی ‘‘،ابواب الرضاع،الحدیث: ۱۱۷۷،ج ۲،ص ۳۹۲)

شوہر کی حاجت پورا کرنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا: شوہر نے عورت کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔(صحيح البخاری ، كتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدكم آمين۔۔۔إلخ، الحدیث: ۳۲۳۷، ج ۲، ص ۳۸۸۔) اور دوسری روایت میں ہے کہ: جب تک شوہر اس سے راضی نہ ہو، اللہ عز و جل اُس عورت سے ناراض رہتا ہے۔(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعها من فراش زوجها الحديث: ١٢١ (١٤٣٦) ١٢٢ (١٤٣٦) ص ٧٥٣)

ہر جائز کام میں شوہر کی اطاعت کرنا: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:عورت جب پانچوں نمازیں پڑہے اور ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عفّت کی محافظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔(حلیۃ الاولیاء،الحدیث: ۸۸۳۰،ج ۶،ص ۳۳۶۔)

شوہر کی ناراض نہ کرے: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور ان کی کوئی نیکی بلند نہیں ہوتی: (۱)بھاگا ہوا غلام جب تک اپنے آقاؤں کے پاس لوٹ نہ آئے اور اپنے کو ان کے قابو میں نہ دے دے۔اور(۲)وہ عورت جس کا شوہر اس پر ناراض ہے اور (۳)نشہ والا جب تک ہوش میں نہ آئے۔ (شعب الایمان ،باب فی حقوق الاولاد والأہلین،الحدیث: ۸۷۲۷،ج ۶،ص ۴۱۷)


شادی کے بعدزندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے،چنانچہ انہیں ایک دوسرے کا خیرخواہ، ہمدرد،سُخن فہم(یعنی بات کو سمجھنے والا)،مزاج آشنا(مزاج کو جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہئے۔کسی ایک کی سُسْتی و لاپرواہی اور نادانی گھرکا سکون برباد کرسکتی ہے۔لہٰذا یہاں احادیث کی روشنی مین شوہر کے حقوق بیان کیے جاہے گے

احادیث کی روشنی میں شوہر کے حقوق:

بیوی کا فرمائش کرنا: بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندہائے،اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے،اس پر اپنے اِحسانات نہ جتائے،کھانے پینے،صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے،الغرض اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم َہے: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1164)

جنتی عورت کی خوبی: شوہر ناراض ہو جائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہوتو وہ کہتی ہے: میرایہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔(معجم صغیر،ج1،ص46)

عورت پر سب سے زیادہ حقوق کس کےہے: حضرت سیّدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض کی:’’ای الناس اعظم حقا علی المرأۃ؟ ترجمہ:عورت پرجن لوگوں کے حقوق ہیں،اُن میں سب سے زیادہ حق کس کاہے؟تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’زوجہا‘‘ترجمہ:اُس کے شوہر کا۔(المستدرک علی الصحیحین، ج4، ص167، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

بیوی کا جنت میں داخلہ: وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ۔رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ روایت ہے حضرت ام سلمہ سے فرماتی ہیں فرمایا : رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جو عورت مر جائے اس حال میں کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو تو جنت میں جائے گی ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، جلد:5 ، حدیث نمبر:3256)

شوہر کی اہمیت: پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

ان احادیث نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مطالعہ کے بعد ہمیں یہ سبق ملا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شوہر کا بہت عظیم مقام و مرتبہ رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں دین سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یارب العالمین


کائنات میں انسانوں کے درمیان سب سے پہلا رشتہ ازدواجیت کا ہی قائم کیا گیا باقی تمام رشتے اس بنیادی رشتے کی پیداوار ہیں یقینا اس رشتے کی خوشگواری اور پائیداری تب ہی ممکن ہے جب شوہر اور بیوی دونوں ہی اپنے حقوق اور فرائض کو سرانجام دیں میاں اور بیوی کے رشتے میں اللہ پاک نے مرد کو عورت پر فوقیت اور حاکمیت عطا کی ہے کیونکہ مرد عورت سے بنیادی طور پر ہی مضبوط اور زیادہ ذہنی قوت کا مالک ہے اور عورت کی نسبت زیادہ معاملات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اپنی خواہشات کو ترک کر کے جو مال اپنی محنت اور مشقت سے کماتا ہے اسے اپنی عورت پر خرچ کرتا ہے انہی خوبیوں کی بنا پر مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤاور انہیں مارو۔(پ5، النسآء:34)

اس آیت مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ ناانصافی یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف و حکمت کے مطابق ہے۔لہٰذا عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کے تمام حقوق کو خوش دلی سے ادا کرے شوہر کے حقوق کے متعلق نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے سنن ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اگر میں اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے اور فرمایا کہ عورت اپنے رب کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔(سنن ابن ماجہ، جلد دوم کتاب النکاح حدیث 1853)

اطاعت و فرمانبرداری: قرآن و حدیث میں عورت کے کثیر فرائض ذکر کیے گئے اور اس کے بنیادی فرائض میں جو بات شامل ہے وہ شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے،اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کا حکم مانے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد دوم، کتاب النکاح ،حدیث : 3114)

قبولیت نماز کے لیے شوہر کو راضی رکھنے کی تاکید : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد کے مطابق جس عورت کا خاوند ناراض رہتا ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی چنانچہ حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کی نہ نماز قبول ہوتی ہے اور نہ کوئی نیکی اوپر اٹھتی ہے (1)فرار ہونے والا غلام یہاں تک کہ وہ اپنے مالک کی جانب واپس آ جائے (2) وہ عورت جس سے اس کا شوہر ناراض ہو (3)نشے والا یہاں تک کہ ہوش میں آ جائے ۔(مراۃ المناجیح، جلد پنجم، باب عشرۃ النساء وما لکل واحد من الحقوق ، حدیث :3130)

شوہر جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا : شوہر کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:(کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ دےلیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4899۔صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1026)

فتاوی رضویہ سے لئے گئے شوہر کے چند حقوق اختصاراً پیش خدمت ہیں:

(1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹہویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)


 شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اسے پر سکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے چنانچہ ایک دوسرے کا خیر خواہ و ہمدرد ہونا چاہیے ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے والا غمگسار اور دلجوی کرنے والا ہونا چاہیے کسی ایک کی سستی ولاپرواہی گھر کا سکون برباد کر سکتی ہے۔میاں بیوی دونوں کے ذمہ کچھ حقوق ہیں جنہیں پورا کرنا لازم ہے بیوی کے ذمے شوہر کے جو حقوق ہیں ان میں سے کچھ جانتے ہیں۔

اس کے مال کی حفاظت کرے: بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال کی حفاظت کرے شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے کسی کو کوئی چیز نہ دے اگر اس نے ایسا گیا تو گناہ گار ہوگی (مسند ابی داؤد الطیالسی الحدیث ١٩٥١)

شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے: عورت پر حق ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اگر اس نے ایسا کیا تو واپس لوٹنے یا توبہ کرنے تک فرشتے اس پرلعنت بھجتے رہیں گے۔ (احیاء العلوم جلد دو مترجم۔صفحہ 217)

شوہر کی ناشکری: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثر عورتوں کو پایا۔عورتوں نے عرض کی یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس سبب سے اشاد فرمایا: وہ لعن طعن زیادہ کرتی اور خاوند کی ناشکری کرتی ہے ۔(صحیح بخاری الحدیث ٥١٩٨,٥١٩٧)

شوہر کی اطاعت: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اگر عورت پانچوں نمازیں پڑہے،رمضان المبارک کے روزے رکھے اپنی شرم گاہ کی حفاظت اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ اپنے رب کی جنت میں داخل ہو گی ۔(احیاء العلوم ، جلد دوم مترجم ،صفحہ 215)

شوہر کو راضی رکھنا:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس عورت کا اس حال میں انتقال ہوا کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔ (احیاء العلوم ،جلد دوم مترجم، صفحہ 215)


اللہ پاک نے انسان کو بہت رشتے عطا فرمائے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں ماں باپ کا بہن بھائی کا اور ان میں سے ایک اہم رشتہ میاں بیوی کا بھی ہے لہٰذا یہاں حدیث کی روشنی میں شوہر کے حقوق بیان کئے جائنگے :

عورت کا جنت میں داخلہ: روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہ رمضان کا روزہ رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے ۔ (ابونعیم حل۔مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ،حدیث نمبر:3254)

شوہر کو اپنی ضرورت کیلئے بیوی کو بلانا: وَعَنْ طَلْقِ ا بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَهُ لِحَاجَتِهِ فَلْتَأْتِهِ، وَإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّورِ ترجمہ: روایت ہے حضرت طلق ابن علی سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لیے بلائے تو وہ فورًا اس کے پاس آئے اگرچہ تنور پر ہو۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:3241)

بیوی کا شوہر کو ستانا: وَعَنْ مُعَاذٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا قَالَت زَوجَتُهُ مِنَ الحُورِ الْعِينِ: لَا تُؤْذِيهِ، قَاتَلَكِ اللہ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكِ دَخِيلٌ، يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا ترجمہ: روایت ہے حضرت معاذ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا نہیں ستاتی کوئی عورت اپنے خاوند کو دنیا میں مگر اس کی حور عین بیوی کہتی ہے کہ خدا تجھے غارت کرے اسے نہ ستا کیونکہ یہ تیرے پاس مہمان ہے بہت قریب تجھے چھوڑ کر ہماری طرف آئے گا۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:3258)

ان احادیث نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مطالعہ کے بعد ہمیں یہ سبق ملا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شوہر کا بہت عظیم مقام و مرتبہ رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں علم دین سیکھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین


اللہ پاک نے انسان کے لیے بہت سے رشتے قائم فرمائے ہیں۔کسی کو اولاد کے رشتے کا نام دیا تو کسی کو والدین کا۔اسی طرح ایک پاک و مُحافِظ رشتہ قائم فرمایا جس کو میاں بیوی کا رشتہ کہا جاتا ہے۔جب رشتے قائم فرمائے گئے تو ان میں سے ہر ایک رشتے کے کچھ نہ کچھ حقوق بھی ضرور دیے گئے ہیں تاکہ وہ رشتہ مضبوط رہے۔اسی طرح حقوق الزوجین (یعنی میاں بیوی کے حقوق)بھی ہیں۔اللہ پاک نے فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف (کا)۔(پ14، النحل:90) انصاف کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ جس کا جو حق ہے اس کو ادا کرا جائے ۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے! کہ شوہر کا مقام بیوی سے زیادہ ہے جیساکہ اللہ پاک نے فرمایا: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر۔(پ5،النسآء:34)

اور جیسا کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا:کسی کو جائز نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے اور اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص11) شریعت میں شوہر کے بھی حقوق بیان کریں جو بیوی پر لازم و ضروری ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

(1) شوہر کی اطاعت: ایک عورت پر لازم و ضروری ہے:کہ اس کا شوہر جس جائز بات کا حکم دے اس کام کو کرے اور جس سے منع کرے اس سے رُک جائے مگر وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو۔جیسا کہ حضور علیہ السّلام نے عورتوں کو یہ حکم دیا:کہ اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پہاڑ کو کالے رنگ کا بنادے اور کالے رنگ کے پہاڑ کو پیلا بنا دے تو عورت اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجالائے۔(ترمذی،ج2،حدیث1852 ص411) یعنی:جتنا بھی دشوار کام ہو اسے بجالائے۔

(2) عزت کی حفاظت: شوہر کا ایک یہ بھی حق ہے کہ جب وہ گھر میں موجود نہ ہو تو اس کی بیوی پر لازم ہے کہ اس کی عزت کی حفاظت کرے۔حضور علیہ السّلام نے ایسے عورت کو بہترین عورت فرمایا ہے۔چنانچہ:بہترین عورت وہ ہے اگر اس کا شوہر غائب رہے تو وہ اپنی ذات اور شوہر کے مال میں حفاظت و خیر خواہی کا کردار ادا کرتی رہے۔(ابن ماجہ، ج2 حدیث: 1857 ،ص 313)

(3) مال بےجا خرچ نہ کرے: ایک بیوی پر یہ لازم ہے کہ اس کا شوہر جو کمائی کرکے لاتا ہے اس کو کسی فضول جگہ یا فضول کاموں میں خرچ نہ کرے بلکہ نیک کاموں میں خرچ کرنے کے ساتھ کچھ جمع بھی کرے۔جیسا کہ اللہ پاک نے بےجا چرچ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) ترجمہ کنزالایمان: اور بے جا نہ خرچو بے شک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں ۔(پ8،الانعام:141)

(4) بدگمانی نہ کرے: بیوی پر ایک یہ بھی بات لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر پر کسی قسم کا شک نہ کرے اور نہ ہی اس پر بدگمانی کرے۔اللہ پاک نے بھی زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا ہے۔چنانچہ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بےشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔ (پ26، الحجرات: 12)

(5) بدکلامی نہ کرے: اگر کسی بات پر شوہر کو غصہ آجاتا ہے اور وہ بیوی کو کچھ بول دیتا ہے تو بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو پلٹ کر جواب نہ دے نہ ہی اس سے بدکلامی کرے کہ شوہر کے ناراض ہونے کا خطرہ ہے۔کبھی کبھار معاذاللہ بات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ طلاق تک نوبت آجاتی ہےاور شوہر کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگر جاتا ہے ذرا سی نادانی میں

اس کے علاؤہ شوہر کے بہت سے حقوق ہیں جو عورت پر لازم ہیں بس بیوی کو یہ حدیث پاک یاد رکھنی چاہیے کہ:-اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہہ کر اس کی ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو اس(شوہر)کا حق ادا نہ ہوگا۔(ارشاداتِ اعلیٰ حضرت،ص55)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ رشتوں کا ادب و احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے،چنانچہ انہیں ایک دوسرے کا خیر خواه، ہمدرد، سخن فہم (یعنی بات کو سمجھنے والا)، مزاج آشنا (مزاج کو جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہیئے۔کسی ایک سسی و لا پرواہی اور نادانی گھر کا سکون برباد کر سکتی ہے۔

(1) شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم،اس کے اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہر کی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی، چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ۔(مسند امام احمد، ج1، ص 406، حدیث: 1661)

(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے، چنانچہ معلم انسانیت صلی الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِہ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایا کہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آ جائے اگرچہ تئور پر ہو۔ (ترمذی، ج 2، ص 386، حدیث: 1163)

(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی ناشکری سے بچے کہ یہ بری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیسا کہ نبی برحق صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْهِ وَاٰلِهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری، ج 3، ص463، حدیث:5197، ملتقطاً)

(4) شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے تو گندے کپڑے،اُلجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تاثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اور اپنے شوہر کے لئے بناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کے لئے گہنا (زیور) پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج22، ص126)

(5) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندہائے، اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرے اور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پھلائے، برتن نہ پچہاڑے، شوہر کا غصہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے،اس پر اپنے احسانات نہ جتائے، کھانے پینے،صفائی استھرائی اور لباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے، الغرض اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے، فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی، ج2، ص 386، حدیث: 1164)

(6) شوہر ناراض ہو جائے تو اُس حدیث پاک کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہو تو وہ کہتی ہے: میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔(معجم صغیر، ج 1، ص 46)

الله پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین 


اللہ رب العزت نے انسانوں اور ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔اور شریعت مطہرہ نے امت محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک دوسرے کے حقوق وفرائض سے آگاہ بھی فرما دیا ہے۔میاں بیوی کی خوشگوار زندگی بسر ہونے کے لیے جس طرح مردوں کو عورتوں کے جذبات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح عورتوں کو بھی لازم ہے کہ مردوں کے جذبات کا خیال رکھیں، ورنہ جس طرح عورت کی ناراضگی سے مرد کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اسی طرح مرد کی ناراضی عورتوں کے لیے بھی وبال جان ہو گی۔

در اصل ازدواجی زندگی کا بگاڑ ہمارے معاشرے کا بگاڑ ہے۔اس لیے اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افراد کی ازدواجی زندگی کو سنوارا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم ایک دوسرے کے حقوق کو پورا کریں گے۔

شادی کے بعدزندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے،چنانچہ انہیں ایک دوسرے کا خیرخواہ، ہمدرد،سُخن فہم(یعنی بات کو سمجھنے والا)،مزاج آشنا(مزاج کو جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہئے۔کسی ایک کی سُسْتی و لاپرواہی اور نادانی گھرکا سکون برباد کرسکتی ہے۔دین اسلام نے میاں اور بیوی کے جدا جدا حقوق ہمیں تعلیم فرمائے ہیں۔آج ہم شوہروں کے حقوق قرآن و سنت کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں اسی حولے سے اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے عطا کردہ چند مدنی پھول پیش خدمت ہیں۔

(1) شوہر حاکم ہوتا ہے اوربیوی محکوم،اس کے اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہرکی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی، چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گاکہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔(مسند امام احمد،ج 1،ص406، حدیث: 1661)

(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے، چنانچہ معلّمِ انسانیت صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آ جائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1163)

(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیساکہ نبیِّ برحق صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری، ج3، ص463، حدیث:5197، ملتقطاً)

(4)شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے توگندے کپڑے،اُلجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے لئےبناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج22،ص126)

(5) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندہائے،اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے،اس پر اپنے اِحسانات نہ جتائے،کھانے پینے،صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے،الغرض اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1164)

(6) شوہر ناراض ہو جائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہوتو وہ کہتی ہے: میرایہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔(معجم صغیر،ج1،ص46)

بیوی کو اپنی زندگی میں جہاں بے بہا احتیاط کی ضرورت ہے وہیں اس کے شوہر کے چند ذاتی حقوق بھی ہیں جن کا اسے ہر حال میں خیال رکھنا چاہیے چند بنیادی اور ذاتی حقوق پیش خدمت ہیں۔بیوی کو کوشش کرنی چاہئے کہ حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی کے کاموں میں لگی رہے۔شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے ہوئے الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف سے شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔ شادی ہو جانے کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔یہ کوشش کرنا کہ بلا وجہ شوہر سے خدمت نہ لی جائے اوراگر کسی موقع پر کوئی کام لینا ہی مقصود ہو تو کام کا بتاتے ہوئے درخواست کا لہجہ اختیار کرنا نہ کہ حکم کا۔ہاں، ایک دوستانہ بے تکلفی کی بات اور ہے۔گھر میں کیے جانے والے شوہر کے کاموں میں حتی الوسع اس کا ہاتھ بٹانا۔گھریلو اور بچوں کی تربیت کے معاملات میں شوہر کے شرعا جائز فیصلوں پر عمل کرنا اور اس کے مشورہ طلب امور میں بھر پور اخلاص سے اچھا مشورہ دینا۔

اگر بیوی ان چھوٹے چھوٹے مدنی اہم ٹپس پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جائے اور ہر کوئی اپنے اپنے حقوق سے واقف ہو کر انہیں ادا کرنے کی کوشش کرے تو ہر گھر امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ


شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اسے پر سکون اور خوش حال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے بلاشبہ نیک اور پر ہیز گار بیویاں ہر قیمت پر شوہروں کی مطیع اور فرمانبردار ہوتی ہیں اور شوہر کی موجودگی اور غیر موجودگی میں بھی ان کی آبرو اور ہر امانت کی حفاظت کرتی ہیں۔بیویوں کے جہاں بے شمار حقوق ہیں۔ وہاں شوہر بھی بیویوں پر حقوق رکھتے ہیں۔میاں بیوی کے مثالی تعلق میں یہ ضروری تھا کہ کسی ایک کو سربراہی کا درجہ دیا جائے اور اسی تناسب سے اس پر ذمہ داریاں عائد کی جائیں ظاہر ہےکہ فطری برتری کے لحاظ سے اس کے لیے شوہرہی زیادہ موزوں ہو سکتا تھاچنانچہ شریعت محمدی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں گھر کا سربراہ مرد ہی کو قرار دیا گیا ہےبڑی ذمہ داریاں اسی پر ہی ڈالی گئی ہیں۔

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نےان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تونیک - عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پچھلے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔(سورۃ النساء آیت 34)

مرد کا افضل ہونے کی وجوہات:مرد کا عورت سے افضل ہونے کی کثیر و جو بات ہیں ان سب کا حاصل دو چیزیں ہیں علم اور قدرت۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد علم اور عقل میں عورت سے فائق ہوتے ہیں اگرچہ بعض جگہ عورتیں بڑھ جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر اب بھی پوری دنیا میں نگاہ ڈالیں تو عقل کے امور مرد ہی کے سپرد ہوتے ہیں۔اسی طرح مشکل کام بھی مردوں کے ذمہ قدرت پر ہیں۔ جیسے جتنے بھی انبیاء، خلفاء اور آئمہ ہوئے سب مرد تھے۔گھڑ سواری، تیراندازی اور جہاد بھی مرد کرتے ہیں۔ یونہی امامت کبری اور امامت صغری اور بیک وقت ایک سے زائد شادیوں کی اجازت بھی مرد ہی کو ملی ہے۔

دوسری وجہ عورتوں پر سرداری کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر نان و نفقہ کی صورت میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اس لیے ان پر حاکم ہیں۔

شوہر کے حقوق احادیث کی روشنی میں:

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تقویٰ کے بعد مومن کے لیے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے اگر وہ اسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اور اگر وہ اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کہا بیٹہے تو قسم سچی کر دے اور بس جلد جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرے۔(ابن ماجہ، کتاب النکاح باب افضل النساء٢/٤١٤ الحدیث (۱۸۵٧)

دوسری حدیث: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی ملی(1) شکر گزار دل (2) یاد خدا کرنے والی زبان (3) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن (4)ایسی بیوی کہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی متلاشی نہ ہو) معجم الکبیر، طلق بن حبیب عن ابن عباس١١/١١٠٩ الحدیث (۱١٢۷۵)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا حق۔میں نے پوچھا مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا حق۔ (مستدرک، کتاب البر والصلة اعظم الناس حقا۔۔۔الخ ۲٤٤/۵ حديث٧٤١٨ -

رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ فرمایا کہ جس عورت کی موت ایسی حالت میں آئے کہ مرتے وقت اس کا شوہر اس سے خوش ہو وہ عورت جنت میں جائے گی۔(سنن ابن ماجہ کتاب النكاح ٤٤ - باب حق الزوج على المراة رقم ١٨٥٤/جلد ٢ ص ٤١٢

حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو کسی کام کے لیے بلائے تو وہ عورت اگر چہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو اس کو لازم ہے کہ وہ اٹھ کر شوہر کے پاس چلی جائے ۔(جامع الترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق الزوج على المراة رقم ۶۶۳ ۱ جلد ۲ ص ۳٨۶)

حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کو یہ بھی حکم دیا۔گیا کہ اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پیار کو کالے رنگ اور کالے رنگ کے پہاڑ کو سفید بنادے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بجا لانا لازم ہے ۔(سنن ابن ماجہ کتاب كتاب النکاح ٤/٤ ،باب حق الزوج على المراة ، رقم :۱۸۵۲ ،جلد ۲ ص، ٤١١)

حضور علیہ السّلام نے فرمایا کہ شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور عورت آنے سے انکار کر دے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو رہے تو رات بھر خدا کے فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعها من فراش رقم ۱۴۳۶ ص ۷۵۳)