محمد
طلحہ محمود عطّاری (درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ خانیوال، پاکستان)
اللہ رب العزت نے انسانوں اور ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا
ہے۔اور شریعت مطہرہ نے امت محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک دوسرے کے
حقوق وفرائض سے آگاہ بھی فرما دیا ہے۔میاں بیوی کی خوشگوار زندگی بسر ہونے کے لیے
جس طرح مردوں کو عورتوں کے جذبات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح عورتوں کو بھی
لازم ہے کہ مردوں کے جذبات کا خیال رکھیں، ورنہ جس طرح عورت کی ناراضگی سے مرد کی
زندگی جہنم بن جاتی ہے اسی طرح مرد کی ناراضی عورتوں کے لیے بھی وبال جان ہو گی۔
در اصل ازدواجی
زندگی کا بگاڑ ہمارے معاشرے کا بگاڑ ہے۔اس لیے اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے ضروری
ہے کہ افراد کی ازدواجی زندگی کو سنوارا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم ایک
دوسرے کے حقوق کو پورا کریں گے۔
شادی کے بعدزندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے
پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے،چنانچہ انہیں ایک
دوسرے کا خیرخواہ، ہمدرد،سُخن فہم(یعنی بات کو سمجھنے والا)،مزاج آشنا(مزاج کو
جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہئے۔کسی ایک کی سُسْتی و لاپرواہی
اور نادانی گھرکا سکون برباد کرسکتی ہے۔دین اسلام نے میاں اور بیوی کے جدا جدا
حقوق ہمیں تعلیم فرمائے ہیں۔آج ہم شوہروں کے حقوق قرآن و سنت کی روشنی میں جاننے
کی کوشش کرتے ہیں اسی حولے سے اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ
وسلم کے عطا کردہ چند مدنی پھول پیش خدمت ہیں۔
(1) شوہر حاکم ہوتا ہے اوربیوی محکوم،اس کے اُلٹ کا خیال
بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہرکی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی
نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی، چنانچہ
فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے،
رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے
کہا جائے گاکہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔(مسند امام احمد،ج 1،ص406، حدیث:
1661)
(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی
کمی نہ آنے دے، چنانچہ معلّمِ انسانیت صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے حکم فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس
کے پاس آ جائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1163)
(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی
ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ
آخرت بھی تباہ کرے گی، جیساکہ نبیِّ برحق صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی وجہ پوچھی گئی تو
فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری، ج3، ص463، حدیث:5197،
ملتقطاً)
(4)شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے توگندے کپڑے،اُلجھے بال
اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ
سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے لئےبناؤ
سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: عورت کا
اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں
نمازِ نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج22،ص126)
(5) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ
کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندہائے،اس کی طرف سے تکلیف
پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر
کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت
کرنے کی کوشش نہ کرے،اس پر اپنے اِحسانات نہ جتائے،کھانے پینے،صفائی ستھرائی اور
لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے،الغرض اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے،
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: جو عورت اس حال
میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی، ج2،ص386، حدیث:
1164)
(6) شوہر ناراض ہو جائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے لئے
مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر
اس سے ناراض ہوتو وہ کہتی ہے: میرایہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ
ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔(معجم صغیر،ج1،ص46)
بیوی کو اپنی زندگی میں جہاں بے بہا احتیاط کی ضرورت ہے وہیں
اس کے شوہر کے چند ذاتی حقوق بھی ہیں جن کا اسے ہر حال میں خیال رکھنا چاہیے چند
بنیادی اور ذاتی حقوق پیش خدمت ہیں۔بیوی کو کوشش کرنی چاہئے کہ حتی الوسع شوہر کی
جائز خوشی کے کاموں میں لگی رہے۔شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے ہوئے
الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف سے
شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔ شادی ہو جانے کے بعد بیوی
کے لیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی
ممانعت نہیں ہے۔یہ کوشش کرنا کہ بلا وجہ شوہر سے خدمت نہ لی جائے اوراگر کسی موقع
پر کوئی کام لینا ہی مقصود ہو تو کام کا بتاتے ہوئے درخواست کا لہجہ اختیار کرنا نہ
کہ حکم کا۔ہاں، ایک دوستانہ بے تکلفی کی بات اور ہے۔گھر میں کیے جانے والے شوہر کے
کاموں میں حتی الوسع اس کا ہاتھ بٹانا۔گھریلو اور بچوں کی تربیت کے معاملات میں
شوہر کے شرعا جائز فیصلوں پر عمل کرنا اور اس کے مشورہ طلب امور میں بھر پور اخلاص
سے اچھا مشورہ دینا۔
اگر بیوی ان چھوٹے چھوٹے مدنی اہم ٹپس پر عمل کرنے میں کامیاب
ہو جائے اور ہر کوئی اپنے اپنے حقوق سے واقف ہو کر انہیں ادا کرنے کی کوشش کرے تو
ہر گھر امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق
چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ
تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ