کائنات میں انسانوں کے درمیان سب سے پہلا رشتہ ازدواجیت کا
ہی قائم کیا گیا باقی تمام رشتے اس بنیادی رشتے کی پیداوار ہیں یقینا اس رشتے کی خوشگواری
اور پائیداری تب ہی ممکن ہے جب شوہر اور بیوی دونوں ہی اپنے حقوق اور فرائض کو سرانجام
دیں میاں اور بیوی کے رشتے میں اللہ پاک نے مرد کو عورت پر فوقیت اور حاکمیت عطا کی
ہے کیونکہ مرد عورت سے بنیادی طور پر ہی مضبوط اور زیادہ ذہنی قوت کا مالک ہے اور عورت
کی نسبت زیادہ معاملات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اپنی خواہشات کو ترک کر کے جو مال
اپنی محنت اور مشقت سے کماتا ہے اسے اپنی عورت پر خرچ کرتا ہے انہی خوبیوں کی بنا پر
مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلرِّجَالُ
قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ
بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ
لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ
فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ
اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال
خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح
اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں
سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤاور انہیں مارو۔(پ5، النسآء:34)
اس آیت مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق
ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ ناانصافی
یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف و حکمت کے مطابق ہے۔لہٰذا عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے
شوہر کے تمام حقوق کو خوش دلی سے ادا کرے شوہر کے حقوق کے متعلق نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب
تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے سنن ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اگر میں اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنے کا
حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے اور فرمایا کہ عورت اپنے
رب کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔(سنن ابن ماجہ،
جلد دوم کتاب النکاح حدیث 1853)
اطاعت و فرمانبرداری: قرآن و حدیث میں
عورت کے کثیر فرائض ذکر کیے گئے اور اس کے بنیادی فرائض میں جو بات شامل ہے وہ شوہر
کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے ، رمضان کے روزے
رکھے،اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کا حکم مانے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے
داخل ہو جائے ۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد دوم، کتاب النکاح ،حدیث : 3114)
قبولیت نماز کے لیے شوہر کو راضی رکھنے کی تاکید : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد کے مطابق جس عورت
کا خاوند ناراض رہتا ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی چنانچہ حضرت جابر سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کی نہ نماز
قبول ہوتی ہے اور نہ کوئی نیکی اوپر اٹھتی ہے (1)فرار ہونے والا غلام یہاں تک کہ وہ
اپنے مالک کی جانب واپس آ جائے (2) وہ عورت جس سے اس کا شوہر ناراض ہو (3)نشے والا
یہاں تک کہ ہوش میں آ جائے ۔(مراۃ المناجیح، جلد پنجم، باب عشرۃ النساء وما لکل واحد
من الحقوق ، حدیث :3130)
شوہر جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا : شوہر کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل
نہ ہونے دے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:(کسی بھی عورت کے لیے
یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ
سکتی ہے، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ دےلیکن اس کی اجازت ہو توپھر
داخل کرے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4899۔صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1026)
فتاوی رضویہ سے لئے گئے شوہر کے چند حقوق اختصاراً پیش خدمت
ہیں:
(1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت
کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت
جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ
پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے
باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹہویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال
سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی
رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)