ہر انسان کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں تو اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان حقوق کو بھی جانیں جو ہمیں ادا کرنے ہیں۔ حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں: 1) حقوق اللہ۔ 2) حقوق العباد۔ حقوق العباد میں سب سے پہلے اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی اور حسن اخلاق سے پیش آنا ضروری ہے اس کے بعد جو سب سے افضل اور پاکیزہ رشتہ ہے وہ میاں بیوی کا ہے شوہر کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرے اور بیوی پر بھی شوہر کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔ لہذا دینِ اسلام جس طرح دیگر معاملات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اسی طرح شوہر کے حقوق ادا کرنے کی بھی ترغیب فرماتا ہے۔

بیوی کے لیے چند باتیں ضروری ہیں کہ وہ ان کو جانے:

1۔ بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اور اس کی نافرمانی اور ناشکری سے بچے۔

2۔ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔لہذا عورتوں کو چاہیے کہ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں نہ کہ یہ خواہش کریں کہ شوہر ان کے غلام بن کر رہیں اور ان کی ہر بات مانیں عورت کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو غلام نہیں بلکہ بادشاہ تصور کریں اور بادشاہ کی بیوی بن کر زندگی گزاریں نہ کہ غلام کی بیوی بن کر۔

3۔بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو ناراض نہ کرے حدیث شریف میں ہے: شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو جائے تو رات بھر اس عورت کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (مسلم، ص578، حدیث: 3541)

ایک روایت میں ہے: شوہر جب تک اس (بیوی)سے راضی نہ ہو اللہ اس عورت سے ناراض رہتا ہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/160، حدیث: 44998)

4۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے حدیث شریف میں ہے: جو عورت بلا حاجت شرعی اپنے گھر سے باہر جائے اور اس کے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے اور جن اور آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اس پر لعنت کریں۔ (معجم اوسط، 6/408، حدیث: 9231)

5۔ بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر سے ناراض ہو کر یا کبھی غصے میں آ کر بھی ہرگز ہرگز ہرگز طلاق دینے کا مطالبہ نہ کرے۔ حدیث شریف میں ہے جو عورت بے ضرورت شرعی خاوند سے طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، 2/402، حدیث:1191)

6۔ عورت کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو راضی رکھے اور اس کی ہر جائز ضروریات کو پورا کرے اس کو وقت پر کھانا دے اور اس کے کپڑے دھوئے اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کی حفاظت کرے اور اس کے بچوں کی اچھی تربیت کرے اور شوہر جب کام سے واپس آئے تو اس سے خوش دلی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملاقات کرے رسول ﷺ نے فرمایا: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

سبحان اللہ بیوی کے لیے کتنی پیاری اور خوبصورت بشارت ہے لہذا اسے چاہیے کہ شوہر کے حقوق کا خیال رکھے اس کی جائز خواہشات کو پورا کرتی رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتی رہے۔

7۔ حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو حکم کرتا کہ غیر خدا کے لیے سجدہ کرے تو حکم دیتا کہ عورت اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

اس حدیث پاک سے شوہروں کی اہمیت خوب واضح ہوتی ہے لہذا اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ ان کے حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔

اللہ پاک ہماری اسلامی بہنوں کو دیگر حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ شوہر کے حقوق سمجھنے اور ان کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


ہمارے پیارے دینِ اسلام نے ہمیں ہر چیز کا درس دیا اور زندگی کے ہر معاملات میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے اور انہی میں سے حقوق العباد بھی ہے اور اس میں ہر رشتے کے حق کو بیان کیا ہے جن میں میاں بیوی کے حقوق بھی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اور آج کل کے دور میں میاں بیوی کی نا اتفاقی صرف ان تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کا اثر ان کی اولاد پر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے اولاد کے دل میں نہ باپ کی عزت رہتی ہے اور نہ ماں کا ادب و احترام۔ جس کی سب سے بڑی وجہ علم سے دوری ہے۔ اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کے وہ جانے کہ ہمارے پیارے دینِ اسلام نے میاں بیوی کے کیا حقوق بیان کئے ہیں۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارا پیارا دینِ اسلام کیا کہتا ہے۔

شوہر کے 5 حقوق:

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا حق۔ (اسلامی شادی ص 101) یہاں شوہر کی اہمیت واضح کرتے ہوئے بتایا گیا کہ عورت پر سب سے بڑا حق صرف اس کے شوہر کا ہے۔

شوہر کو بیوی پر فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اگر انسان کیلئے کسی انسان کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورت کو ضرور حکم دیتا کہ جب شوہر اس کے پاس آیا کرے تو اُسے سجدہ کیا کرے اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے شوہر کو بیوی پر عطا فرمائی۔ (اسلامی شادی ص 102) یہاں شوہر کی اہمیت اور فضیلت کو کتنے پیارے انداز میں بیان کیا ہے۔

اسی طرح شوہر کے حقوق بھی ہیں جن کو احادیث میں بیان کیا گیا ہے جن میں سے پانچ حقوق ملاحظہ فرمائیں۔ بیوی پر شوہر کے حقوق:

شوہر کی اطاعت کرنا: اس حق کی ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں: چنانچہ ایک شخص سفر پر روانہ ہوا اور اس نے اپنی بیوی سے عہد لیا کہ وہ نیچے نہ اترے اس کا باپ نیچے رہتا تھا، وہ بیمار ہو گیا، اس عورت نے حضور ﷺ کی خدمت میں ایک آ دمی کو بھیج کر باپ کے پاس جانے کی اجازت طلب کی، حضور ﷺ نے فرمایا: اپنے خاوند (شوہر) کی اطاعت کر پھر وہ مرگیا اور عورت نے پھر اجازت طلب کی تو حضور ﷺ نے فرمایا: اپنے خاوند کی اطاعت کر پھر اس کے باپ کو دفن کر کر دیا گیا اور حضور ﷺ نے اسے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے خاوند کی اطاعت کی وجہ سے اس کے باپ کو بخش دیا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 608) ماشاءاللہ یہاں بیوی کی اطاعت کی وجہ سے ان کے والد صاحب کو بخش دیا گیا۔

اس کے مال کی حفاظت کرنا: بیوی پر یہ حق ہے لازم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے مال کو ضائع نہ کرے بلکہ اس کے مال کی حفاظت کرے۔ اسی حقوق کے متعلق ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ فرمانِ نبوی: عورت کے لئے حلال نہیں کہ خاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ کھائے۔ ہاں ایسا کھانا کھا سکتی ہے جس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو اگر بیوی خاوند کی رضامندی سے کھائے گی تو اسے خاوند کے برابر ثواب ملے گا اور نہ خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ کھائے گی اور خاوند کو اجر ملے گا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 612)

شوہر کو دنیا میں ایذا نہ دینا: امام احمد و ترمذی و ابن ماجہ معاذ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے، حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حور عین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔ (ترمذی، 2/ 392، حدیث: 1177)

شوہر کو راضی رکھنا: ترمذی میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت اس حال میں مری کہ شوہر راضی تھا، وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

اس کی اجازت کے بغیر باہر نہ جانا: اس حق کی ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ طبرانی تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت پر شوہر کا حق یہ ہے کہ اس کے بچھونے کو نہ چھورے اس کی قسم کو سچا کرے بغیر اس کی اجازت کے باہر نہ جائے اور ایسے شخص کو مکان میں نہ آنے دے جو خاوند کو ناپسند ہو۔(بہار شریعت، 2/102)


نکاح اطاعت کا دوسرا نام ہے اللہ پاک نے بیوی کو شوہر کا تابع بنایا ہے لہذا اس پر لازم آتا ہے کہ ہر حالت میں خاوند کی فرمانبردار رہے بشرطیکہ خاوند اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم نہ دے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ماننے والوں کو نکاح کی صورت میں ایک بہترین اور مضبوط نظام عطا فرمایا ہے اسلام نے میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کا درس دیا ہے اسلام نے جہاں مرد کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ اپنی بیوی کا خیال رکھے اس کے حقوق ادا کرے اور اس کے ساتھ مل کر ایک اچھی زندگی گزارے وہیں خاتون کی ذمہ داری میں بھی یہ بات آتی ہے کہ وہ بھی اپنے شوہر کا خیال رکھے اور اس کے لیے سکون کا سبب بنے نہ یہ کہ اپنے شوہر پر بے جا مطالبوں کا اتنا بوجھ ڈال دے کہ وہ پریشان ہو کر اللہ پاک کی نافرمانی کرنے پر مجبور ہو جائے جو کہ ہلاکت کا سبب ہے۔

میاں بیوی کا رشتہ مل جل کر کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ بیوی شوہر کی فرمانبردار اور شوہر بیوی کی دلجوئی کرے میاں بیوی باہم اپنے حقوق کے اعتبار سے برابر ہیں لیکن جس طرح باپ اور بیٹے اپنے اپنے حقوق میں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں اور شریعت کا حکم ہے کہ باپ افسر اور بیٹا ماتحت ہو کر رہے باپ حکم دے اور بیٹا مانے اس طرح معاشرے کی انتظامی مشین میں مرد کو عورت پر برتری حاصل ہے عورت مرد کے ماتحت ہے اور تابع ہے عورت خرچ میں مرد کے دست نگر رہتی ہے۔

نیک بیویوں کی کیا علامت ہے؟

وہ اپنے شوہر کی غیر حاضری میں اس کی عزت و ناموس اور اس کی مال و جائیداد کی نگہداشت کرنے والیاں ہوتی ہیں اور اپنی اور اپنے شوہر کی عزت و آبرو اور مال کا خیال رکھتی ہیں اللہ تعالی نے ان میں اپنی عظمت کا خیال اور شوہر کی فرمانبرداری کا جذبہ پیدا کر کے انہیں محفوظ کر دیا مختصر لفظوں میں عورت کے ذمے یہ تین فرائض ہیں جو قران کریم نے ان پر عائد کیا ہے

۱) اپنے شوہر کی اطاعت گزار فرمانبردار رہو!

۲) سلیقہ شعار ہو کر شوہر کے مال و دولت کو برباد نہ کرے؟

۳) عفت مآب ہو کر اپنے اور اپنے شوہر کی عزت و ناموس پر آنچ نہ آنے دے!

اب عورتوں کو اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ اس قرانی معیار پر کہاں تک پوری اترتی ہیں اور اپنے شوہروں کی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے حقوق ادا کرتی ہیں۔

اس سلسلے میں احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ

1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت پر سب لوگوں سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر اس کی ماں کاہے۔

ایک جگہ اور فرمایا کہ اگر میں کسی کو کسی مخلوق کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کہ اللہ تعالی نے مردوں کا حق عورتوں کے ذمے کر دیا ہے قسم ہے اس کی جس کے قبضے قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے عورت اپنے پروردگار کا حق ادا نہ کرے گی جب تک شوہر کا حق ادا نہ کرے۔

ایک جگہ اور ارشاد فرمایا: اے عورتو! خدا سے ڈرو اور شوہر کی رضامندی کی تلاش میں رہو اس لیے کہ عورتوں کو معلوم ہوتا کہ شوہر کا کیا حق ہے تو جب تک یہ اس کے پاس کھاتا رہتا یہ کھڑی رہتی۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

عورت ایمان کا مزہ نہ پائے گی جب تک شوہر کا حق ادا نہ کرے۔

تقوی کے بعد نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کے شوہر اس سے جو کہے وہ مانے جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کر دے اور اگر شوہر قسم دے کر کچھ کہے تو وہ اس کی قسم کو پورا کر دے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)

وہ عورت جس کا شوہر اس سے ناراض ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اور کوئی نیکی بلند نہیں ہوتی۔

بیویوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ وہ مردوں کی مالکن نہیں اور ان کے شوہر ان کے غلام نہیں لہذا حقوق دونوں ایک سطح پر ہیں۔ ہاں جسمانی ساخت اور دماغی قوت کے باعث مرد کو ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات کی بنیادی باہمی محبت اور اخلاص اور ہمدردی پر ہونا چاہیے۔ عورت کی پیدائش کا منشا ہے کہ وہ مرد کے لیے سرمایہ راحت و تسکین ہیں ان کے لیے سکون قلب کا باعث ہے اور درد کا درماں اور غم کا مداوا ہے عورتیں مرد کے لیے پیدا کی گئی ہیں تاکہ ان کا دل ان سے لگا رہے۔ جو عورتیں اپنے شوہروں کو ان کی آمدنی پر طرح طرح کے کوسنے دیتی ہیں لہذا وہ ان بے جا فرمائشیں پوری کرنے کے لیے حرام و حلال کی پرواہ نہیں کرتا اور ناجائز ذرائع اختیار کر کے اپنی قبر و آخرت کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو اس بات کی کوئی پرواہ نہ ہوگی کہ اس نے مال کہاں سے حاصل کیا حرام سے یا حلال سے؟ (بخاری، 2/ 7، حدیث: 2059)

اس لیے خواتین کو چاہیے کہ اپنے شوہروں کو آزمائش میں نہ ڈالیں، ان پر زیادہ بوجھ نہ بنیں بلکہ ہر اعتبار سے ممکنہ صورت میں ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں نیز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سیرت مبارکہ پر غور کریں کہ انہوں نے کس طرح مشکل سے مشکل وقت میں ہمارے پیارے اقا ﷺ کی ہر طرح سے مدد کر کے ایک مخلص باوفا خیر خواہ اور اطاعت گزار بیوی ہونے کا ثبوت دیا۔

اللہ پاک مسلمان خواتین کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا صدقہ عطا فرمائے اور ان کی سیرت مطہرہ پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کے بعد عورت پر جس کی اطاعت سب سے زیادہ لازم ہے وہ اس کا شوہر ہے اسی لیے پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑو اگر عورت جان لے کے شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح وشام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔(کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔

عورت پر مرد کے حقوق بہت سے ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:

1۔ بیوی پر لازم ہے کہ شوہر کی تعظیم کرے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی شخص کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162) علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (میں عورت کو حکم دیتا کہ شوہر کو سجدہ کرے) کیونکہ کہ عورت پر شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے سے عاجز ہے اور یہ حد درجہ مبالغہ ہے تاکہ تاکہ پتہ چلے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کس قدر واجب و لازم ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں لیکن اگر جائز ہوتا تو صرف اور صرف شوہر کو جائز ہوتا۔ (مرقاۃ المفاتیح، 6/401، تحت الحديث: 3255)

2۔ عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر مال و اولاد کی حفاظت کرے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مرد اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد پر نگران ہے اور تم سب نگران ہو اور تم سے تمہارے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (مسلم، ص 116، حديث: 1829) مذکورہ حدیث پاک میں عورت کو بھی اپنے شوہر کے گھر اور اولاد کی ذمہ دار فرمایا گیا، چنانچہ علامہ محمد بن علّان شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عورت اپنے شوہر کے گھر کی چور، اچکوں سے حفاظت کرے اور (گھر کے کھڑکی دروازے بند رکھ کر) چوہے بلیوں جیسے دیگر نقصان پہنچانے والے جانوروں سے حفاظت کرے جو کہ گھروں میں گھس جاتے ہیں یونہی شوہر کے مال سے ایسا صدقہ نہ کرے جس سے شوہر راضی نہ ہو۔ (دلیل الفالحین، 2/111، تحت الحديث: 284)

3۔ ازدواجی تعلقات میں مطلقاً شوہر کی اطاعت کرے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے پھر اس کا شوہر ناراضی کی حالت میں رات گزارے تو فرشتے صبح ہونے تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (مسلم، ص 753، حديث: 1436)

لعنت بھیجنے کی وجہ: علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عورت ہر نیک و جائز کام میں اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری پرمامور ہے اگر وہ مامور بہ(جس کا حکم دیا گیا) کاموں سے منع کرے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں نیز حالت حیض میں بھی وہ منع نہ کرے کیونکہ جمہور علماء کے نزدیک حالت حیض میں بھی شوہر ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصے کے علاؤہ سے نفع اٹھا سکتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 6/393، تحت الحديث: 3246)

4۔ بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزے نہ رکھے۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفل روزہ رکھے اور کسی کو اس کی اجازت کے بغیر گھر میں نہ آنے دے۔ (بخاری، 3/462، حديث: 5195)

5۔ شوہر کا ایک حق یہ بھی ہے کہ بیوی شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کرے۔ نبی رحمت شفیع امت ﷺ نے ارشاد فرمایا: تقویٰ کے بعد نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کہ شوہر اسے دیکھے تو وہ اس کو خوش کر دے اور اگر شوہر قسم دے کر کچھ کہے تو اس کی قسم کو پورا کردے۔

میرے آقا اعلی حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عورت کا اپنے شوہر کے لیے زیور پہننا بناؤ سنگھار کرنا باعث اجر و ثواب ہے اور اس کے حق میں نفل سے افضل ہے بعض صالحات کے خود اور ان کے شوہر دونوں صاحب اولیاء کرام سے تھے ہر شب بعد نماز عشاء پورا سنگھار کر کے دلہن بن کر اپنے شوہر کے پاس آتیں اگر انہیں اپنی طرف متوجہ پاتی تو حاضر رہتیں ورنہ زیور و لباس اتار کر مصلے بچھاتیں اور نماز میں مشغول ہو جاتیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 22/126)

اللہ پاک ہمیں اپنے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کے بعد عورت پر جس کی اطاعت سب سے زیادہ لازم ہے وہ اس کا شوہر ہے اسی لیے پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑو اگر عورت جان لے کے شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح وشام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔(کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔

عورت پر مرد کے حقوق بہت سے ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:

1۔ بیوی پر لازم ہے کہ شوہر کی تعظیم کرے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی شخص کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162) علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (میں عورت کو حکم دیتا کہ شوہر کو سجدہ کرے) کیونکہ کہ عورت پر شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے سے عاجز ہے اور یہ حد درجہ مبالغہ ہے تاکہ تاکہ پتہ چلے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کس قدر واجب و لازم ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں لیکن اگر جائز ہوتا تو صرف اور صرف شوہر کو جائز ہوتا۔ (مرقاۃ المفاتیح، 6/401، تحت الحديث: 3255)

2۔ عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر مال و اولاد کی حفاظت کرے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مرد اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد پر نگران ہے اور تم سب نگران ہو اور تم سے تمہارے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (مسلم، ص 116، حديث: 1829) مذکورہ حدیث پاک میں عورت کو بھی اپنے شوہر کے گھر اور اولاد کی ذمہ دار فرمایا گیا، چنانچہ علامہ محمد بن علّان شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عورت اپنے شوہر کے گھر کی چور، اچکوں سے حفاظت کرے اور (گھر کے کھڑکی دروازے بند رکھ کر) چوہے بلیوں جیسے دیگر نقصان پہنچانے والے جانوروں سے حفاظت کرے جو کہ گھروں میں گھس جاتے ہیں یونہی شوہر کے مال سے ایسا صدقہ نہ کرے جس سے شوہر راضی نہ ہو۔ (دلیل الفالحین، 2/111، تحت الحديث: 284)

3۔ ازدواجی تعلقات میں مطلقاً شوہر کی اطاعت کرے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے پھر اس کا شوہر ناراضی کی حالت میں رات گزارے تو فرشتے صبح ہونے تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (مسلم، ص 753، حديث: 1436)

لعنت بھیجنے کی وجہ: علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عورت ہر نیک و جائز کام میں اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری پرمامور ہے اگر وہ مامور بہ(جس کا حکم دیا گیا) کاموں سے منع کرے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں نیز حالت حیض میں بھی وہ منع نہ کرے کیونکہ جمہور علماء کے نزدیک حالت حیض میں بھی شوہر ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصے کے علاؤہ سے نفع اٹھا سکتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 6/393، تحت الحديث: 3246)

4۔ بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزے نہ رکھے۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفل روزہ رکھے اور کسی کو اس کی اجازت کے بغیر گھر میں نہ آنے دے۔ (بخاری، 3/462، حديث: 5195)

5۔ شوہر کا ایک حق یہ بھی ہے کہ بیوی شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کرے۔ نبی رحمت شفیع امت ﷺ نے ارشاد فرمایا: تقویٰ کے بعد نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کہ شوہر اسے دیکھے تو وہ اس کو خوش کر دے اور اگر شوہر قسم دے کر کچھ کہے تو اس کی قسم کو پورا کردے۔

میرے آقا اعلی حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عورت کا اپنے شوہر کے لیے زیور پہننا بناؤ سنگھار کرنا باعث اجر و ثواب ہے اور اس کے حق میں نفل سے افضل ہے بعض صالحات کے خود اور ان کے شوہر دونوں صاحب اولیاء کرام سے تھے ہر شب بعد نماز عشاء پورا سنگھار کر کے دلہن بن کر اپنے شوہر کے پاس آتیں اگر انہیں اپنی طرف متوجہ پاتی تو حاضر رہتیں ورنہ زیور و لباس اتار کر مصلے بچھاتیں اور نماز میں مشغول ہو جاتیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 22/126)

اللہ پاک ہمیں اپنے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ تعالی نے شوہروں کو بیویوں پر حاکم مقرر کیا اور بہت بڑی بزرگی دی ہے اس لیے ہر عورت پر فرض ہے کہ اپنے شوہر کا حکم مانے اور خوشی خوشی اپنے شوہر کی تابعداری کرے کیوں کہ اللہ تعالی نے شوہر کا بہت بڑا حق بنایا ہے یاد رکھیں کہ شوہر کو راضی اور خوش رکھنا بہت بڑی عبادت ہے اور شوہر کو ناخوش اور ناراض رکھنا بہت بڑا گنا ه ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر میں خدا کے سوا کسی دوسرے کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کے وہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے اور حضور اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس عورت کی موت ایسی حالت میں آئے کہ مرتے وقت اس کا شوہر اس سے خوش ہو وہ عورت جنت میں جائے گی۔ (جنّتی زیور، ص 49)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت با نیت ثواب د رستی اپنے شوہر کے گھر کی کوئی چیز اٹھاتی اور رکھتی ہےاس کے لیے اللہ ایک نیکی لکھتا اور ایک گناہ مٹا تا ہے اور اس کا ایک درجہ اونچا کر دیتا ہے جو حاملہ عورت حالت حمل کی کوئی تکلیف برداشت کرتی ہے اس کے لیے قائم ا لیل اور صائم نہار اور راہ خدا میں جہاد کرنے والے کے برابر ثواب ہے۔

حضرت ثابت بن انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے مجھے عورتوں نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجا میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ عورتیں کہتی ہیں کے مرد بزرگی میں بڑھ گئے اور راہ خدا میں جہاد کرنے کا اجر لے گئے ہمارے لئے کسی ایسے عمل کا تذکرہ نہیں ہے کے ہم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے عمل کی برابری کر سکیں۔ ارشاد فرمایا گھر میں بیٹھ کر تم میں ہر ایک کا کام کاج کرنا راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے عمل کے برابر ہے۔ (غنیۃ الطالبین، ص 82)

پس عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے نہ رشتے داروں کے گھر نہ کسی دوسرے کے گھر۔ عورت پر فرض ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مکان مال و اسباب کی حفاظت کرے اور بغیر اس کی اجازت کے کسی کو مکان میں مت آنے دیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت عورت پر سب سے بڑا فرض ہے۔

عورت پر لازم ہے کہ مکان اور اپنے بدن اور کپڑوں کی صفائی ستھرائی کا خاص طور پر دھیان رکھے۔ میلی کچیلی نہ رہے بلکہ بناؤ سنگھار سے رہا کرے تا کہ شوہر اُس کو دیکھ کر خوش ہو جائے حدیث مبارکہ میں ہے: بہترین عورت وہ ہے کہ جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ اپنے بناؤ سنگھار اور اپنی اداؤں سے شوہر کا دل خوش کر دے اور اگر شوہر کسی بات کی قسم کھا جائے تو وہ اس قسم کو پوری کردے اور اگر شوہر غائب رہے تو وہ اپنی ذات اور شوہر کے مال میں حفاظت اور خیر خواہی کا کردار ادا کرے۔ عورت ہرگز کوئی ایسا کام نہ کرے جو شوہر کو نہ پسند ہو۔ (جنّتی زیور ص 51)


حقوق حق کی جمع ہے اس کے معنی فرد یا جماعت کا حصہ ہونا۔ جس طرح اللہ رب العزت نے مرد پر عورت کے حقوق مقرر کیے ہیں بالکل اسی طرح عورت پر بھی مرد کے حقوق ہیں۔ ایک شہری ہونے کے ناطے ملک یا شہر کے کچھ حقوق ہوتے ہیں ویسے ہی دین اسلام میں بھی حقوق ہیں اور ان حقوق کو ادا یا پورا کرنا ہر ایک پر فرض ہے۔ جس طرح شہر یا ملک کے حقوق ادا نہ کرنے سے اس کے مسائل یا بگاڑ کی وجہ ہم بن سکتے ہیں ویسے ہی اگر ہم دین اسلام کے حقوق ادا نہ کریں گے تو معاشرے کے حالات اور فتنوں کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔

ہمارا دین اسلام ایک خوبصورت مذہب ہے۔ اس میں اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی طاقت کے مطابق حقوق و فرائض عطا فرمائے ہیں۔ ہر شخص پر ضروری ہے کہ وہ ان حقوق و فرائض کو ادا کرے اور اگر ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا تو گنہگار ہوگا۔

اب میں حدیث مبارکہ کے روشنی میں حق شوہر ادا کرنےکےلئےکچھ احادیث سے استفادہ کروں گی۔

عورت اپنے شوہر کے آرام و سکون کا لحاظ رکھے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر مرد اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے اور مرد بیوی سے ناراض ہو جائے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (مسلم، ص578، حدیث: 1436) اس حدیث مبارکہ کی وضاحت یہ ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کے آرام و سکون کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے اور اس کو اپنی طرف سے ناراض نہ کرے۔ اگرچہ وہ عورت رات بھر مصلے پر بیٹھی رہے اور اپنے رب کی حمد و ثنا کرے تو اس کی رات بھر کی عبادت بھی قبول نہ ہوگی۔

شوہر کا کتنا بڑا حق: عورت دین اسلام کے حقوق و فرائض ادا کرنے اور اپنے آپ کو گناہوں اور کوتاہیوں سے بچائے اور شریعت کے مطابق چلے۔ عورت اپنے شوہر کی دلداری کا خاص خیال رکھے، اس کو تکلیف نہ دے بلکہ آرام پہنچائے اور اس کی فرمانبرداری کرے۔ مندرجہ ذیل حدیث میں حقِ شوہر کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ کے سوا (کسی (دوسرے) کو سجدہ کرے تو عورت کو ضرور حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162) اس حدیث مبارکہ کے تحت ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک اللہ کے علاوہ کسی اور کو (یعنی غیر اللہ کو)سجدہ کرنا حرام و شرک ہے، بعض عورتیں قبرستان و مزارات پر جا کر سجدے کرتی ہیں یہ حرام ہے۔ اس حدیث مبارکہ کی مزید وضاحت میں یوں بیان کرتی ہوں کہ جیسے فرشتوں نے حضرت ادم علیہ السلام کو سجدہ کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے سجدہ کیا۔ اس سجدے کو سجدۂ تعظیمی کہتے ہیں جو کہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں جائز نہیں ہمیں صرف ایک اللہ کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سجدے کو سجدۂ بندگی کہتے ہیں۔یعنی صرف ایک اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا حرام و شرک ہے۔ حدیث کے تحت اگر آپ ﷺ اپنی امت کو اللہ رب العزت کے سوا کسی اور کو سجدے کا حکم فرماتے تو عورت کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم فرماتے لیکن چونکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے اس لیے عورت اپنے شوہر کو سجدہ نہیں کر سکتی البتہ اس کے لیے شوہر کی اطاعت کا حکم ضروری ہے۔

جس عورت سے اس کا شوہر راضی ہو وہ جنتی ہے: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں انتقال کرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش ہو تو وہ عورت جنتی ہے۔ (ترمذی،2/386، حدیث: 1164) اس حدیث مبارکہ کی وضاحت یہ ہے کہ عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی خوشی کا خیال رکھے یعنی کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو اور اگر اس عورت کا انتقال ہو گیا تو اس عورت کا داخلہ جنت میں ہوگا۔

شوہر کے حقوق کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بیٹے پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے اور بیوی پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔

مندرجہ بالا حدیث کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح بیٹے پر سب سے زیادہ ماں کے حقوق و فرائض ہیں بالکل اسی طرح بیوی پر سب سے زیادہ اس کے شوہر کے حقوق ہیں۔


میٹھی میٹھی اسلامی بہنوں! اللہ نے مردوں اور عورتوں کو جنسی بے راہ روی اور وسوسئہ شیطانی سے بچانے نیز نسلِ انسانی کی بقا! و بڑھو تری اور قلبی سکون کی فراہمی کے لیے اُنہیں جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پرویا ہے وہ رشتۂ ازدواج کہلاتا ہے یہ رشتہ جتنا اہم ہے اتنا ہی نازک بھی ہے کیونکہ ایک دوسرے کی خلافِ مزاج باتوں کو برداشت نہ کرنے،برداشت سے کام نہ لینے اور ایک دوسرے کی اچھایوں کو نظر انداز کرکے صرف کمزوریوں پر نظر رگھنے کی عادت زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں جس کے نتیجے میں گھر جنگ کا میدان بن جاتا ہے جبکہ باہمی تعاون، خلوص، چاہت،درگزر اور تحمل مزاجی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیر دیتے ہیں۔

شوہر کے حقوق کی متعلق چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

1۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک اُس عورت پر رحم فرمائے جو رات اٹھے پھر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ (ابو داود، 2/48، حدیث: 1308)تفسیرِ صراط الجنان میں ہے: پانی کے چھینٹیں مارنے کی اجازت اس صورت میں ہے جب جگانے کے لئے بھی ایسا کرنے میں خوش طبعی کی صورت ہو یا دوسرے نے ایسا کرنے کا کہا ہو۔ (صراط الجنان، 10/222)

2۔ حضور ﷺ نے فرمایا: دنیا ایک مال ہے اور دنیا کے مال میں سے نیک عورت سے زیادہ کوئی چیز فضیلت والی نہیں۔

وضاحت: معلوم ہوا کہ نیک عورت دنیا کا ایک قیمتی سرمایہ ہے نیک عورت شوہر کے لئے باعثِ فخر اور سب سے انمول ہے۔ (ابنِ ماجہ، 2/412، حدیث:1855)

3۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ اللہ کے سِوا کسی اور کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

مشہور مفسرِ قرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: کہ خاوند کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اسکے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے اسی لئے خاوند ہی اس کے سجدے کا مستحق ہوتا خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اسکی ہر جائز تعظیم کی جائے۔

4۔ عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے،رمضان کے روزے رکھے،اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ (مسند امام احمد، 1/406، حدیث:1441)

روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرائض کے ساتھ یعنی (نماز،روزے) کے ساتھ ساتھ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری بھی ضروری ہے اور اسکی اطاعت و فرمانبرداری پر جنت کی بشارت دی گئی۔

5۔ پیارے آقا ﷺ نے نیک بیوی کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی بیان فرمائی: اگر اس کا شوہر اسے دیکھے تو وہ (اپنے ظاہری و باطنی حسن و جمال سے) اسے خوش کردے۔ لہذا ہر شادی شدہ اسلامی بہن کو چاہیے کہ وہ باطنی زینت کے ساتھ ساتھ حتی المقدور مہندی، سرمہ اور زیورات سے ظاہری زینت کا بھی اہتمام کرے،یاد رہے بظاہر زیادہ اہم نظر نہ آنے والی یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں میاں بیوی کے تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے بے حد ضروری ہے کیونکہ حصولِ معاش کیلئے محنت و مشقت کے بعد دن بھر کا تھکا ماندہ شوہر جلدی جلدی گھر لوٹتا ہے تاکہ اسے سکون ملے اگر گھر میں داخل ہی وہ بیوی کے برتاؤ میں کوئی خوش کن پہلو نہیں دیکھتا تو یقیناً گھٹن اور تنگی محسوس کرتا ہے اور اس چیز کے اظہار کے لیے ذرا ذرا سی بات پر بر ہم ہو جائے گا اس کے بر عکس اگر گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اپنی بیوی کو حسین و جمیل صورت میں دیکھتا ہے تو وہ اپنی بیوی سے محبت اور رغبت محسوس کرتا ہے شوہر کی آمد سے پہلے بیوہ کا خود تیار ہونا اور مسکرا کر اس کا استقبال کرنا اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ اسے شوہر کے گھر آنے سے خوشی و مسرَّت ہوئی ہے اس قسم کا برتاؤ دیکھ کر شوہر دن بھر کی تھکاوٹ بھول جاتا ہے اور اسے ذہنی سکون ملتا ہے نیز عورت کا اپنے شوہر کے لئے زینت اختیار کرنا خود اس کے لئے بھی اجرو ثواب کا باعث ہے۔ (ابنِ ماجہ، 2/414، حدیث:1857)

حضرتِ امِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیِ رحمت، شفیع امت،شہنشاہِ نبوت ﷺ کا فرمانِ جنت نشان ہے:جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کاشوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

وضاحت: بیوی شوہر کو اپنا غلام نہ بنالے کہ جو میں چاہوں وہی ہو، چاہے کچھ ہوجائے مگر میری بات میں فرق نہ آئے بلکہ اس کے لیے یہی حکم ہے کہ اپنے شوہر کے حقوق کا خیال رکھے، اس کی جائز خواہشات کو پورا کرتی رہے،اور اسکی نافرمانی سے بچتی رہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ جنتی عورتیں کون سی ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کی: جی ہاں! یا رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمایا:ہر محبت کرنے والی،زیادہ بچے جننے والی عورت، جب وہ شوہر کو ناراض کر دے یا اسے تکلیف دی جائے یا اس کا شوہر اس پر غصہ کرے تو وہ کہے کہ یہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک نہیں سوؤں گی جب تک آپ راضی نہ ہوجائیں۔ (معجم صغیر،1/46، حدیث: 118)

وضاحت: پیاری اسلامی بہنو! غور کیجئے کہ ہمارے آقا مکی مدنی مصطفی ﷺ نے کتنے احسن انداز میں خواتین کو حسنِ اخلاق کا درس دیا ہے یہ ہے جینے کا حقیقی انداز، اچھے اخلاق سے گھر جنت کا نمونہ بنتے ہیں۔ واقعی ہر اسلامی بہن اچھی برتاؤ اور حسنِ اخلاق کو لازم پکڑ لے تو گھر کی خوشیوں کو چار چاند لگ جائیں گے۔


شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پر سکون بنانے کے لیے شوہر و بیوی کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام نے ہر انسان کے دوسرے انسان پر کچھ حقوق مقرر فرمائے ہیں، شوہر کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں۔

سجدہ کا حکم: رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقینا عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: خاوند کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے، اس لیے شوہر ہی اس کے سجدے کا مستحق ہے، شوہر کی اطاعت تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے۔

شوہر کو راضی رکھنا: بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے، اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرے اور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پھلائے۔ الغرض اسے راضی رکھنے کی کوشش کرے۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/336، حدیث: 1164)

شوہر کی ناشکری سے بچا جائے: بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی ناشکری سے بچے کہ یہ بری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ (بخاری، 3 / 463، حدیث: 5197)

شوہر کی اطاعت: شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم، اس کے الٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہذا جائز کاموں میں شوہر کی اطاعت کرنا، بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی۔ فرمان آخری نبی ﷺ: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/ 406، حدیث: 1661)

الله ہمیں اپنے گھریلو معاملات میں شریعت کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حقوق و فرائض بہترین انداز میں سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

انسان کی تخلیق کے بعد رب تعالیٰ نے جو سب سے پہلا رشتہ بنایا ہے وہ رشتہ ازدواج ہے شریعت نے جہاں والدین اور دیگر رشتہ داروں سے صلح رحمی کرنے اور انکے حقوق پورے کرنے کی تاکید کی وہاں میاں بیوی کے بھی حقوق ارشاد فرمائے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔(پ5،النسآء:34)

مرد عورتوں پر نگہبان ہیں کیونکہ مرد عورتوں کی ضروریات پوری کرتا ہے اس کی حفاظت کرتا ہے عورتوں کو ادب سکھانے میں مرد کو عورت پر حکمرانی حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا ہے اور مرد باد شاہ اور اس لیے عورت پر مرد کی اطاعت لازم ہے اور رہی بات شوہر کے حقوق کی تو مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں یہ عورت کے ساتھ ظلم نہیں بلکہ عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔

بیوی پر شوہر کے حقوق بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں امور متعلقہ زن و شوہر میں مطلق اس کی اطاعت والدین پر بھی مقدم ہے اس کے ناموس کی بشدت حفاظت اس کے مال کی حفاظت ہر بات میں اس کی خیرخواہی ہر وقت امور جائزہ میں اس کی رضا کا طالب رہنا اسے اپنا مولی جاننا نام لے کر پکارنا کسی سے اس کی بے جا شکایت نہ کرنا خدا توفیق دے تو بجا سے بھی احتراز بچنا اس کی اجازت کے آٹھویں دن سے پہلے والدین یا سال بھر سے پہلے اور محارم کے یہاں نا جانا وہ ناراض ہو تو اس کی خوشامد کرکے منانا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھ کر کہنا کہ یہ میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں یہاں تک کہ تم راضی ہو یعنی میں تمہاری مملوکہ ہوں جو چاہو کرو مگر راضی ہو جاؤ۔(فتاوی رضویہ، جلد 24،صفحہ 372 رضا فائونڈیشن لاہور)

چند ایک احادیث مبارکہ شوہر کے حقوق کے بارے میں :

(1) پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

(2)طبرانی معاذ رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:عورت ایمان کا مزہ نہ پائے گی جب تک حقِ شوہر ادا نہ کرے۔(المعجم الکبیر ،الحدیث: ۹۰،ج ۲۰،ص ۵۲)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:شوہر نے عورت کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔(صحیح البخاری،الحدیث: ۳۲۳۷،ج ۲،ص ۳۸۸)

(4)ابونعیم علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرمایا:اے عورتو!خدا سے ڈرو اور شوہر کی رضا مندی کی تلاش میں رہو، اس لیے کہ عورت کو اگر معلوم ہوتا کہ شوہر کا کیا حق ہے تو جب تک اس کے پاس کھانا حاضر رہتا یہ کھڑی رہتی۔ (کنزالعمال،ج ۱۶،ص ۱۴۵)

(5)ترمذی ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو عورت اس حال میں مری کہ شوہر راضی تھا، وہ جنت میں داخل ہوگی۔(جامع الترمذی،ج ۲،ص ۳۸۶)

مرد کے کئی طرح کے حقوق ہیں سب سے پہلے مرد کے ذاتی حقوق کے بارے میں بات کرینگے ۔

شوہر کے ذاتی حقوق:

(1) حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی میں مصروف رہنا(2) شوہر کا احترام کرنا اس سے بات چیت کرتے ہوئےادب کو ملحوظ رکھنا(3) شوہر کو نام سے پکارنا پسند نا ہو تو اس کا لحاظ رکھنا (4)شادی کے بعد بیوی کےلیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں (5)اگر شوہراور نکاح کرنا چاہے تو اسے اللہ کا حکم سمجھتے اجازت دینا۔

شوہر کے معاشرتی حقوق: (1)تمام رشتوں میں شوہر کو ترجیح دینا (2)شوہر کو بلاوجہ والدین سے الگ ہو جانے کےلیے اصرار نا کرنا (3) بچوں کے سامنے ان کے باپ کا وقار بحال رکھنا (4) اپنی سوکنوں سے اچھا رویہ اور کبھی کبھی انہیں اپنے حقوق پر ترجیح دینا (5)شوہر کے راز فاش نہ کرے۔

شوہر کے معاشی حقوق :(1) شوہر کی آمدن سے زیادہ اس سے مطالبہ نہ کرنا (2) اس کے مال کی حفاظت کرنا اور ضرورت کے کاموں میں بھی فضول خرچی نا کرنا (3) شوہر کی اجازت کے بغیر سلائی کڑہائی معاشی مصروفیات میں مشغول نا ہونا(4)بے جا مطالبات پورے کروانے کےلیے شوہر پر دباؤ نہ ڈالے قناعت اختیار کرنا قناعت والی عورتیں اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور شوہر کی ناشکری بھی نا کرے کیونکہ شادی شدہ زندگی میں شکر گزاروں کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہےاسی ضمن میں حضرت ابراھیم علیہ السّلام کا واقعہ یاد آتا ہے کہ

جب وہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی غیر موجودگی میں ان کے گھر تشریف لے گئے اور انکی بیوی کے ناشکری کے کلمات سنے تو اپنی بہو کو ایک اجنبی بزرگ نے مشورہ دیا کہ تمہارا خاوند آئے تو اسے کہنا کہ چوکھٹ بدل لے تو وہ کم فہمی میں سمجھی نہیں اور شوہر کے آنے پر بتایا تو انہوں نے اسے طلاق دے دی اور دوبارہ شادی کی پھر کچھ عرصہ بعد حضرت ابراھیم علیہ السّلام آئے اور آپ کے بیٹے گھر نہیں تھے۔ آب کی نئی بہو سے شکرگزاری کے کلمات سنے اور فرمایا اپنے شوہر کو کہنا یہی چوکھٹ رکھے بیوی نے ایسے ہی شوہر کو بتائے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین 


بیوی پر شوہر کے حقوق: وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۲۲۸)ترجمہ کنز الایمان: اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے۔(پ2، البقرۃ:228) مرد و عورت دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن مرد کو بہرحال عور ت پر فضیلت حاصل ہے اور اس کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں۔

بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں:

حقوق نمبر(1):ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا، اس بارے میں حدیث مبارکہ سماعت فرمائیں: ابونعیم حلیہ میں انس رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے اور ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عفّت کی محافظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔

حقوق نمبر(2): اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا، اور بیوی کو چاہے کہ وہ اپنے شوہر کی عزت کی حفاظت کریں اور حتیٰ الامکان اس کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔

حقوق نمبر(3): اس کے مال کی حفاظت کرنا اور جو اس کاگھر اور اسکا مال اس کے گھر کا سامان اور اولاد اور ماں باپ کا خیال رکھیں اور ان کی حفاظت کریں۔

حقوق نمبر(4): ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا اور بیوی کو چاہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر جائز اچھے کام میں خیر خواہی کریں اور اس کی مدد کریں اور جو وہ کام کررہا ہے اس کی اس میں خیر خواہی کریں تاکہ خوشی سے کام کریں اور اسے حوصلہ ہو۔

حقوق نمبر(5): ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا اور جائز کاموں میں اس کی مددکریں اور اس کو حوصلہ دے۔

حقوق نمبر(6): اسے اپنا سردار جاننا، پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کی: شوہر کا حق اُس کی بیوی پر کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہ بیوی اپنے شوہر کو خود سے نہ روکے اگر چہ اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہو اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر کی کوئی چیز کسی کو نہ دے، اگر دے گی تو شوہر کے لئے ثواب اور عورت کیلئے گناہ ہے اور اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزونہ رکھے اگر ایسا کیا تو گناہ گار ہو گی اور کچھ ثواب نہ ملے گا نیز شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اگر نکلی تو جب تک تو بہ نہ کرے یا واپس نہ آ جائے رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔عرض کی گئی (بیوی کو کیسا ہونا چاہیئے؟) اگر چہ شوہر ظالم ہو؟ فرمایا: اگر چہ وہ ظالم ہو۔اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح اور شام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔شوہر کو اپنے سر کا تاج اور سردار سمجھے اور لوگوں کے سامنے اس کی برائیاں بیان نہ کرے ۔

حقوق نمبر(7): شوہر کونام لے کر نہ پکارنا، بیوی کو چاہے کہ شوہر کو کسی کے سامنے اور کوئی نہ بھی ہو تو نام لےکر نہ پکارے زاہد کے ابو وغیرہ کہہ کر مخاطب کرے۔

حقوق نمبر(8): کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا اور عورت کو چاہے کہ اپنے گھریلو معمولات کو اور شوہر کے بارے میں کسی کونہ بتائے اور صبر کریں اور اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کریں کہ اللہ پاک اس کو ہدایت دے دے۔

حقوق نمبر(9): اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا۔ بیوی کو چاہے کہ شوہر جوکچھ کر لڑائی جھگڑا یا مارے اور کام بھی نہ کریں بات بھی نہ مانے اور کہنا بھی نہ مانے تو اس کی شکایت وغیرہ نہ کرے بلکہ صبر کا مظاہرہ کر یں اگر چہ اس کے خلاف شکایت وغیرہ ہے۔

حقوق نمبر(10): اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا، اس بارے میں حدیث مبارکہ سماعت فرمائیں: حدیث میں ہے : نفلی روزے کے لئے شوہر کی اجازت جس عورت کا شوہر موجود ہو اس کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھنا حلال نہیں اور نہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں کسی کو آنے کی اجازت دینا جائز ہے۔اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔حدیث میں ہے: طبرانی تمیم داری رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت پر شوہر کا حق یہ ہے کہ اس کے بچھونے کو نہ چھوڑے اور اس کی قسم کو سچا کرے اور بغیر اس کی اجازت کے باہر نہ جائے اور ایسے شخص کو مکان میں آنے نہ دے جس کا آنا شوہر کو پسند نہ ہو۔

حقوق نمبر (11): وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)

شوہر کے حقوق کی تفصیل: امیر اہلسنت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکاتُهُمُ العالیہ نے اپنی کتاب پر دے کے بارے میں سوال جواب میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شوہر کے حقوق کی اہمیت پر بہت مفید روشنی ڈالی ہے۔ملاحظہ کیجئے۔

سوال: اسلامی بہن پر شوہر کے حقوق کی کیا تفصیل ہے؟ کیا شوہر کا حق ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہے؟

جواب: شوہر کے حقوق کا بیان کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عورت پر مرد کا حق خاص امور متعلقہ زوجیت میں اللہ و رسول پاک وصلى الله علیہ و اٰلہ و سلم کے بعد تمام حقوق حتی کہ ماں باپ کے حق سے زائد ہے۔ان اُمور میں اُس کے احکام کی اطاعت اور اُس کے ناموس کی نگہداشت (یعنی اس کی عزت کی حفاظت) عورت پر فرض اہم ہے، بے اس کے اذن کے محارم کے سوا کہیں نہیں جاسکتی اور محارم کے یہاں بھی ماں باپ کے یہاں ہر آٹھویں دن وہ بھی صبح سے شام تک کیلئے اور بہن، بھائی، چچا، ماموں ، خالہ، پھوپی کے یہاں سال بھر بعد اور شب (یعنی رات) کو کہیں نہیں جا سکتی ۔(فتاوی رضویہ، 24/380)

اے روز آخرت پر ایمان رکھنے والی اسلامی بہنو! اگر آپ نے بھی کبھی شوہر کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنایا ہے تو عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنے شوہر سے معافی مانگ کر اسے راضی کر لیجئے کیونکہ اگر شوہر کے ساتھ احسان فراموشی والا سلوک کرنے، فرمائش پوری نہ ہونے پر اسے جلی کٹی باتیں بنانے اور اس کا دل دکھانے کی وجہ سے اگر جہنم میں ڈال دیا گیا تو ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔شوہر کی ناشکری سے عورت کو اس لئے بھی بچنا چاہئے کہ مسلسل اس قسم کی باتیں شوہر کے دل میں نفرت کے طوفان پید اکر دیں گی اور اگر خدانخواستہ اس کی ضد میں آکر تعلقات کی ناؤ ڈوب گئی تو عمر بھر پچھتانا پڑے گا۔اس لئے کامیاب بیوی وہی ہے جو کبھی بھی ناشکری کے الفاظ زبان پر نہ لائے بلکہ آسانیوں کے علاوہ تنگدستی کے حالات میں بھی صبر وشکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ زندگی کے دن گزارے تا کہ وہ پریشانیوں میں خود کو تنہانہ سمجھے۔( بخاری، کتاب النکاح باب كفران العتير۔۔۔الخ، ۴۶۳/۳، حدیث: ۵۱۹۷) 


مسلمانوں اللہ کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے مسلمانوں کے درمیان ازواجی تعلقات رکھے مسلمان مرد وہ نکاح کے ذریعے عورت سے اپنی حاجات کو پورا کر سکتا ہے اور امت مسلمہ میں اضافہ کر سکتا ہے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے ڈھال ہونا چاہیے مرد کے اپنی بیوی پر بہت حقوق ہیں اور عورت کے اپنے شوہر پر بھی بہت حقوق ہیں ، تفسیر صراط الجنان میں وارد ہوتا ہے: شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں:

(1) خرچہ دینا (2) رہائش مہیا کرنا (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا (4) نیک باتوں حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں۔

اور مسلمانوں یہ تو عورت کے حقوق ہیں اور عورت پر مرد کے حقوق بھی ہے بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)

بیوی کو اپنے شوہر کی ہر نیک کو جائز بات ماننی چاہیے اور شوہر کو بھی چاہیے اپنی بیوی کے ساتھ نرم مزاج رکھے میں اپنے کالم کا ختم ان لفظوں سے کرتا ہوں کہ عورت کو چاہیے اپنے شوہر کی عزت کریں اور اس کا ادب کرے اور مرد کو بھی یہی چاہیے ۔