انسان کی تخلیق کے بعد رب تعالیٰ نے جو سب سے پہلا رشتہ بنایا ہے وہ رشتہ ازدواج ہے شریعت نے جہاں والدین اور دیگر رشتہ داروں سے صلح رحمی کرنے اور انکے حقوق پورے کرنے کی تاکید کی وہاں میاں بیوی کے بھی حقوق ارشاد فرمائے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔(پ5،النسآء:34)

مرد عورتوں پر نگہبان ہیں کیونکہ مرد عورتوں کی ضروریات پوری کرتا ہے اس کی حفاظت کرتا ہے عورتوں کو ادب سکھانے میں مرد کو عورت پر حکمرانی حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا ہے اور مرد باد شاہ اور اس لیے عورت پر مرد کی اطاعت لازم ہے اور رہی بات شوہر کے حقوق کی تو مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں یہ عورت کے ساتھ ظلم نہیں بلکہ عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔

بیوی پر شوہر کے حقوق بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں امور متعلقہ زن و شوہر میں مطلق اس کی اطاعت والدین پر بھی مقدم ہے اس کے ناموس کی بشدت حفاظت اس کے مال کی حفاظت ہر بات میں اس کی خیرخواہی ہر وقت امور جائزہ میں اس کی رضا کا طالب رہنا اسے اپنا مولی جاننا نام لے کر پکارنا کسی سے اس کی بے جا شکایت نہ کرنا خدا توفیق دے تو بجا سے بھی احتراز بچنا اس کی اجازت کے آٹھویں دن سے پہلے والدین یا سال بھر سے پہلے اور محارم کے یہاں نا جانا وہ ناراض ہو تو اس کی خوشامد کرکے منانا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھ کر کہنا کہ یہ میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں یہاں تک کہ تم راضی ہو یعنی میں تمہاری مملوکہ ہوں جو چاہو کرو مگر راضی ہو جاؤ۔(فتاوی رضویہ، جلد 24،صفحہ 372 رضا فائونڈیشن لاہور)

چند ایک احادیث مبارکہ شوہر کے حقوق کے بارے میں :

(1) پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

(2)طبرانی معاذ رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:عورت ایمان کا مزہ نہ پائے گی جب تک حقِ شوہر ادا نہ کرے۔(المعجم الکبیر ،الحدیث: ۹۰،ج ۲۰،ص ۵۲)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:شوہر نے عورت کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔(صحیح البخاری،الحدیث: ۳۲۳۷،ج ۲،ص ۳۸۸)

(4)ابونعیم علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرمایا:اے عورتو!خدا سے ڈرو اور شوہر کی رضا مندی کی تلاش میں رہو، اس لیے کہ عورت کو اگر معلوم ہوتا کہ شوہر کا کیا حق ہے تو جب تک اس کے پاس کھانا حاضر رہتا یہ کھڑی رہتی۔ (کنزالعمال،ج ۱۶،ص ۱۴۵)

(5)ترمذی ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو عورت اس حال میں مری کہ شوہر راضی تھا، وہ جنت میں داخل ہوگی۔(جامع الترمذی،ج ۲،ص ۳۸۶)

مرد کے کئی طرح کے حقوق ہیں سب سے پہلے مرد کے ذاتی حقوق کے بارے میں بات کرینگے ۔

شوہر کے ذاتی حقوق:

(1) حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی میں مصروف رہنا(2) شوہر کا احترام کرنا اس سے بات چیت کرتے ہوئےادب کو ملحوظ رکھنا(3) شوہر کو نام سے پکارنا پسند نا ہو تو اس کا لحاظ رکھنا (4)شادی کے بعد بیوی کےلیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں (5)اگر شوہراور نکاح کرنا چاہے تو اسے اللہ کا حکم سمجھتے اجازت دینا۔

شوہر کے معاشرتی حقوق: (1)تمام رشتوں میں شوہر کو ترجیح دینا (2)شوہر کو بلاوجہ والدین سے الگ ہو جانے کےلیے اصرار نا کرنا (3) بچوں کے سامنے ان کے باپ کا وقار بحال رکھنا (4) اپنی سوکنوں سے اچھا رویہ اور کبھی کبھی انہیں اپنے حقوق پر ترجیح دینا (5)شوہر کے راز فاش نہ کرے۔

شوہر کے معاشی حقوق :(1) شوہر کی آمدن سے زیادہ اس سے مطالبہ نہ کرنا (2) اس کے مال کی حفاظت کرنا اور ضرورت کے کاموں میں بھی فضول خرچی نا کرنا (3) شوہر کی اجازت کے بغیر سلائی کڑہائی معاشی مصروفیات میں مشغول نا ہونا(4)بے جا مطالبات پورے کروانے کےلیے شوہر پر دباؤ نہ ڈالے قناعت اختیار کرنا قناعت والی عورتیں اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور شوہر کی ناشکری بھی نا کرے کیونکہ شادی شدہ زندگی میں شکر گزاروں کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہےاسی ضمن میں حضرت ابراھیم علیہ السّلام کا واقعہ یاد آتا ہے کہ

جب وہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی غیر موجودگی میں ان کے گھر تشریف لے گئے اور انکی بیوی کے ناشکری کے کلمات سنے تو اپنی بہو کو ایک اجنبی بزرگ نے مشورہ دیا کہ تمہارا خاوند آئے تو اسے کہنا کہ چوکھٹ بدل لے تو وہ کم فہمی میں سمجھی نہیں اور شوہر کے آنے پر بتایا تو انہوں نے اسے طلاق دے دی اور دوبارہ شادی کی پھر کچھ عرصہ بعد حضرت ابراھیم علیہ السّلام آئے اور آپ کے بیٹے گھر نہیں تھے۔ آب کی نئی بہو سے شکرگزاری کے کلمات سنے اور فرمایا اپنے شوہر کو کہنا یہی چوکھٹ رکھے بیوی نے ایسے ہی شوہر کو بتائے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین