حقوق حق کی جمع ہے اس کے معنی فرد یا جماعت کا حصہ ہونا۔ جس طرح اللہ رب العزت نے مرد پر عورت کے حقوق مقرر کیے ہیں بالکل اسی طرح عورت پر بھی مرد کے حقوق ہیں۔ ایک شہری ہونے کے ناطے ملک یا شہر کے کچھ حقوق ہوتے ہیں ویسے ہی دین اسلام میں بھی حقوق ہیں اور ان حقوق کو ادا یا پورا کرنا ہر ایک پر فرض ہے۔ جس طرح شہر یا ملک کے حقوق ادا نہ کرنے سے اس کے مسائل یا بگاڑ کی وجہ ہم بن سکتے ہیں ویسے ہی اگر ہم دین اسلام کے حقوق ادا نہ کریں گے تو معاشرے کے حالات اور فتنوں کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔

ہمارا دین اسلام ایک خوبصورت مذہب ہے۔ اس میں اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی طاقت کے مطابق حقوق و فرائض عطا فرمائے ہیں۔ ہر شخص پر ضروری ہے کہ وہ ان حقوق و فرائض کو ادا کرے اور اگر ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا تو گنہگار ہوگا۔

اب میں حدیث مبارکہ کے روشنی میں حق شوہر ادا کرنےکےلئےکچھ احادیث سے استفادہ کروں گی۔

عورت اپنے شوہر کے آرام و سکون کا لحاظ رکھے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر مرد اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے اور مرد بیوی سے ناراض ہو جائے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (مسلم، ص578، حدیث: 1436) اس حدیث مبارکہ کی وضاحت یہ ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کے آرام و سکون کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے اور اس کو اپنی طرف سے ناراض نہ کرے۔ اگرچہ وہ عورت رات بھر مصلے پر بیٹھی رہے اور اپنے رب کی حمد و ثنا کرے تو اس کی رات بھر کی عبادت بھی قبول نہ ہوگی۔

شوہر کا کتنا بڑا حق: عورت دین اسلام کے حقوق و فرائض ادا کرنے اور اپنے آپ کو گناہوں اور کوتاہیوں سے بچائے اور شریعت کے مطابق چلے۔ عورت اپنے شوہر کی دلداری کا خاص خیال رکھے، اس کو تکلیف نہ دے بلکہ آرام پہنچائے اور اس کی فرمانبرداری کرے۔ مندرجہ ذیل حدیث میں حقِ شوہر کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ کے سوا (کسی (دوسرے) کو سجدہ کرے تو عورت کو ضرور حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162) اس حدیث مبارکہ کے تحت ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک اللہ کے علاوہ کسی اور کو (یعنی غیر اللہ کو)سجدہ کرنا حرام و شرک ہے، بعض عورتیں قبرستان و مزارات پر جا کر سجدے کرتی ہیں یہ حرام ہے۔ اس حدیث مبارکہ کی مزید وضاحت میں یوں بیان کرتی ہوں کہ جیسے فرشتوں نے حضرت ادم علیہ السلام کو سجدہ کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے سجدہ کیا۔ اس سجدے کو سجدۂ تعظیمی کہتے ہیں جو کہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں جائز نہیں ہمیں صرف ایک اللہ کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سجدے کو سجدۂ بندگی کہتے ہیں۔یعنی صرف ایک اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا حرام و شرک ہے۔ حدیث کے تحت اگر آپ ﷺ اپنی امت کو اللہ رب العزت کے سوا کسی اور کو سجدے کا حکم فرماتے تو عورت کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم فرماتے لیکن چونکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے اس لیے عورت اپنے شوہر کو سجدہ نہیں کر سکتی البتہ اس کے لیے شوہر کی اطاعت کا حکم ضروری ہے۔

جس عورت سے اس کا شوہر راضی ہو وہ جنتی ہے: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں انتقال کرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش ہو تو وہ عورت جنتی ہے۔ (ترمذی،2/386، حدیث: 1164) اس حدیث مبارکہ کی وضاحت یہ ہے کہ عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی خوشی کا خیال رکھے یعنی کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو اور اگر اس عورت کا انتقال ہو گیا تو اس عورت کا داخلہ جنت میں ہوگا۔

شوہر کے حقوق کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بیٹے پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے اور بیوی پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔

مندرجہ بالا حدیث کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح بیٹے پر سب سے زیادہ ماں کے حقوق و فرائض ہیں بالکل اسی طرح بیوی پر سب سے زیادہ اس کے شوہر کے حقوق ہیں۔