اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے چار قسم کے حقوق متعین فرمائے ہیں یعنی ذاتی، معاشرتی، معاشی اور قلبی حقوق۔تو آج ہم اِن شآءَ اللہ شوہر کے ان حقوق کی تفصیل سے آگاہ ہونے کی کوشش کریں گے۔مستورات ان حقوق کو اپنی ذمہ داری کے اعتبار سے سنیں،جب کہ مرد حضرات انہیں بیویوں پر مسلط ہونے کے لیے نہیں، بلکہ ان کی معاونت اور اپنی بیٹیوں کو ان کے شوہروں کے حقوق بتانے کے لیے سنیں۔

بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زیادہ عظیم ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں:میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا: أَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلٰی الْمَرْأَةِ قَالَ: زَوْجُہَا، قُلْتُ: فَأَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلَی الرَّجُلِ قَالَ: أُمُّہُ ․(السنن الکبریٰ للنسائی) ترجمہ: عورت پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س کے شوہر کا، پھر میں نے عرض کیا مرد پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س کی ماں کا۔

ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے جب خاوند کے حقوق کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حَقُّ الزَّوْجِ عَلٰی زَوْجَتِہ أَنْ لَّوْ کَانَتْ قَرْحَةٌ فَلَحَسَتھا مَا أَدَّتْ حَقَّہ ترجمہ: آدمی کا اس کی بیوی پر حق یہ ہے کہ اگر اس کے بدن پرکوئی زخم ہو اور وہ اسے چاٹ لے تو بھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔(الترغیب والترھیب)

حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أیُّما امرأةٍ ماتَت وزوجُہا عنہا راضٍ دخلَتِ الجنَّةَ (ترمذی) کہ جس عورت کا اس حالت میں انتقال ہو جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ عورت جنت میں داخل ہوگی۔آیئے! سب سے پہلے شوہر کے ذاتی حقوق کی بات کرتے ہیں۔

ذاتی حقوق:حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی کے کاموں میں لگنا۔شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے ہوئے الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف سے شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔ شادی ہو جانے کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔قلبی خوشی سے اس کی خدمت میں لگنا اور اس کے لباس، کھانے وغیرہ کی تیاری میں اس کی مرضی کا خیال رکھنا۔اور بروقت اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا، مثلا: دفتر وغیرہ جانے کے وقت اس کے کپڑے تیار ہوں، جوتے تیار ہوں، اس کی ضروری اشیاء جو اس نے اپنے ساتھ لے جانی ہیں وہ تیار ہوں، اور سب اشیاء ایک متعین جگہ یانظروں کے سامنے والی جگہ میں موجود ہوں، ایمرجنسی کے احوال میں کام آنی والی چیزیں بالخصوص اضافی سوٹ وغیرہ استری شدہ تیار رکھنا، اس کے واپس آنے کے وقت، گھر کی صفائی ستھرائی مکمل کیے ہوئے رکھنا اور شوہر کے کھانا کھانے کے وقت میں کھانا تیار رکھنا، وغیرہ وغیرہ امور شوہر کو خوش کر دینے والے ہیں۔

مرد گھر کے باہر کی ذمہ داری رکھتا ہے اور عورت کی ذمہ داری گھر کے اندر کی ہے، جیسے گھر کی نگرانی، صفائی اور کھانے پینے کا انتظام وغیرہ، یہی طریقہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں رائج رہا ہے۔

حضرت حصین بن محصن بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی کسی حاجت کے لیے خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں، جب اپنی حاجت سے فارغ ہوگئیں تو آپ نے دریافت فرمایا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اپنے شوہر کے ساتھ تیرا معاملہ کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!میں اس کے حق کی ادائیگی اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی، الا یہ کہ میرے بس سے باہر ہو، آپ نے فرمایا: دھیان رکھنا کہ اس کے ساتھ تمہارا معاملہ کیسا رہتا ہے، وہ تمہارے لیے جنت یا جہنم کا سبب ہے۔(مسند احمد)

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتی رہے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ۔

بیوی کا انس و محبت میں شوہر کو ہر وقت کے لیے خود پر اختیار دینا۔حضرت طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ فوراًآ جائے ،چاہے وہ چولہے کے پاس مشغول ہو۔(ترمذی)

اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور وہ انکار کرے، پس شوہر ناراض ہو کر رات گزارے تو اس عورت پر صبح تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور وہ انکارکرے تو الله تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے، یہاں تک کہ شوہر اس سے خوش ہو جائے ۔مشکوۃ

یہ کوشش کرنا کہ بلا وجہ شوہر سے خدمت نہ لی جائے اوراگر کسی موقع پر کوئی کام لینا ہی مقصود ہو تو کام کا بتاتے ہوئے درخواست کا لہجہ اختیار کرنا، نہ کہ حکم کا۔ہاں، ایک دوستانہ بے تکلفی کی بات اور ہے۔

گھر میں کیے جانے والے شوہر کے کاموں میں حتی الوسع اس کا ہاتھ بٹانا۔

گھریلو اور بچوں کی تربیت کے معاملات میں شوہر کے شرعا جائز فیصلوں پر عمل کرنا اور اس کے مشورہ طلب امور میں بھر پور اخلاص سے اچھا مشورہ دینا۔

خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اُسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے۔

اگر شوہر ایک سے زائد نکاح کرنا چاہے تو اسے اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے خوشی سے اجازت دینا۔

معاشرتی حقوق:تمام رشتوں اور تعلقات کے ہر جائز معاملے میں شوہر کو ترجیح دینا۔اس کے ماں باپ سے، خصوصاً ماں سے اپنے حقیقی ماں باپ کی طرح حسن سلوک اختیار کرنا،کیوں کہ مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے، جب کہ عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔شوہر کے ماں باپ یا دوسرے اعزہ کی طرف سے اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا شوہر کو طعنہ نہ دینا کہ وہ تو ایسے ہیں، ایسے ہیں اور ایسے ہیں۔اسی طرح شوہر کی طرف سے پہنچنے والی ناگواری کی وجہ سے اس کو کوستے ہوئے اس کے والدین وغیرہ کو درمیان میں داخل نہ کرنا، مثلا: تم بھی ایسے ہو اور تمہارا فلاں اور فلاں بھی ایسا ہی ہے۔شوہر کو بلا وجہ اس کے ماں باپ اور گھر انے سے الگ ہو جانے کے لیے اصرار نہ کرنا۔اس کے لیے ایسے کشمکش کے حالات نہ پیدا کرنا جن میں اس کے لیے بیوی اور اپنے دیگر متعلقہ رشتوں کے درمیان فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے ۔شوہر کو معاشرے میں یعنی اپنے علاوہ لوگوں میں عزت دینا۔اس کے ساتھ کسی دوسرے، خصوصاً اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں وغیرہ کے سامنے اس سے بحث و تکرار نہ کرنا۔بلاوجہ شکوہ وشکایت کا رویہ اختیار نہ کرنا۔اسی طرح بچوں کے سامنے ان کے باپ کا وقار بحال رکھنا۔اپنی سوکنوں سے اچھے رویے سے پیش آنا اور کبھی کبھی انہیں اپنے حق پر ترجیح دینا۔بچوں کے جو معاملات ان کے باپ سے خصوصا متعلق ہیں یا جن معاملات میں باپ انہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دے، تو بچوں کو یہ باور کروانا کہ ان کا باپ ان کے اور ان کی ماں کے معاملے میں پوری طرح خود مختار ہے۔گھر میں بھی اور باہر بھی ہر جائز کام میں شوہر کے ہر جائز فیصلے کی تصدیق کرنا، ان فیصلوں کی تائید میں اس کے ساتھ کھڑے ہونا اور ان پر عمل درآمد میں حتی المقدور اس کی معاونت کرنا۔اس کے دیگر رشتہ داروں کو بھی پردے اور دیگر شرعی اصولوں کے اہتمام کے ساتھ عزت دینا اور شوہر کے ان سے ملنے میں راضی رہنا۔شوہر کی راز اور پردے کی باتیں دوسروں سے محفوظ رکھنا۔دوسروں کے سامنے اندرون خانہ مشکلات کو بطور شکوہ وناشکری ذکر نہ کرنا۔

معاشی حقوق:شوہر کی آمدن اور گھر بار کے دیگر وسائل سے زیادہ اس سے مطالبے نہ کرنا۔بے جا مطالبات، حد سے بڑھی ہوئی اپنی ضروریات اور فضولیات پوری کروانے کے لیے شوہر پر دباوٴ نہ ڈالنا، قناعت کی صفت والی عورتیں اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسندیدہ ہیں۔خاوند کی آمدن کے اندر ہی اپنی جائز ضروریات پوری کروانا۔اس کے مال کی حفاظت کرنا، اسی طرح ضرورت کے کاموں میں بھی فضول خرچی نہ کرنا، بلکہ کفایت شعاری کو اختیار کرنا۔شوہر کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس کے مال کو خودیا کسی کو استعمال کے لیے نہ دینا۔ہاں، چہوٹی موٹی ایسی چیزیں جن کے بلا اجازت استعمال کر لینے کے بارے میں معروف ہے کہ شوہر ناراض نہیں ہو گا ان کے استعمال میں حرج نہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔