اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی
اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری
عمل ہے۔ ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار
ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، نفرت
اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔
بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے
ہیں، بلکہ خاوند کے حقوق تو بیوی کے حقوق سے بھی زیادہ عظیم ہیں، اس لیے کہ اللہ
سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ
الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ
اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۲۲۸) (پ 2، البقرة: 228) ترجمہ: اور ان
عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں، قاعدہ(شرعی)کے موافق اور
مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور الله زبردست ہے تدبیر والا۔
وضاحت: امام جصاص رحمۃ
اللہ علیہ نے لکھا ہے: اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ خاوند اور
بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں اورخاوند کے بیوی پر ایسے حق بھی ہیں جو بیوی
کے خاوند پر نہیں۔
شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم، اس کے
اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہر کی اطاعت کرنا
بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار
ہوگی۔
شوہر کے حقوق کے متعلق چند احادیث مبارکہ درج ذیل
ہیں: چنانچہ
(1) فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: عورت جب پانچوں
نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی
اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ (مسند امام
احمد، 1/406، حدیث: 1661)
(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا
کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے کہ معلّمِ انسانیت ﷺ نے حکم فرمایا کہ جب
شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آجائے
اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)
(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات
کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے
گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیسا کہ نبیِّ برحق ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے
جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی
ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری،3/463، حدیث:5197)
(4) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر
فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے،اس کی
طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ
پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں
گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، اس پر اپنے اِحسانات نہ
جتائے،کھانے پینے، صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے، الغرض
اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے۔ جيسا کہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جو عورت اس حال
میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث:
1164)
(5) شوہر ناراض ہوجائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے
لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا
شوہر اس سے ناراض ہو تو وہ کہتی ہے: میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی
نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔ (معجم صغیر، 1/64، حديث: 118)
(6)رسولُ اللہ ﷺ سے بہترین عورت کے بارے
میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (بہترین عورت وہ ہے) جسے شوہر حکم دے تو وہ اُس کی
بات مانتی ہو، جب شوہر اُسے دیکھے تو وہ اُسے خوش کر دیتی ہو، وہ عورت اپنی اور
شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہو۔ (سنن کبریٰ للنسائی، 5 / 310، حدیث: 8961)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے اِس حدیثِ پاک میں ایک ذمّہ دار بیوی کی بہت اہم خصوصیات بیان
فرمائی ہیں: (1) حکم ماننے والی (2) شوہر کو خوش رکھنے والی (3) مال و عزّت کی
حفاظت کرنے والی۔
ذاتی حقوق:
(1) حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی کے کاموں میں
لگنا۔
(2)شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے
ہوئے الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف
سے شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔
(3)شادی ہو جانے کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام
اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔
(4)قلبی خوشی سے اس کی خدمت میں لگنا اور اس کے
لباس، کھانے وغیرہ کی تیاری میں اس کی مرضی کا خیال رکھنا۔ اور بروقت اس کی
ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا، مثلا: دفتر وغیرہ جانے کے وقت اس کے کپڑے تیار
ہوں، جوتے تیار ہوں، اس کی ضروری اشیاء جو اس نے اپنے ساتھ لے جانی ہیں وہ تیار
ہوں، اور سب اشیاء ایک متعین جگہ یا نظروں کے سامنے والی جگہ میں موجود ہوں،
ایمرجنسی کے احوال میں کام آنی والی چیزیں بالخصوص اضافی سوٹ وغیرہ استری شدہ تیار
رکھنا، اس کے واپس آنے کے وقت، گھر کی صفائی ستھرائی مکمل کیے ہوئے رکھنا اور شوہر
کے کھانا کھانے کے وقت میں کھانا تیار رکھنا، وغیرہ وغیرہ امور شوہر کو خوش کر
دینے والے ہیں۔
مرد گھر کے باہر کی ذمہ داری رکھتا ہے اور عورت کی
ذمہ داری گھر کے اندر کی ہے، جیسے گھر کی نگرانی، صفائی اور کھانے پینے کا انتظام
وغیرہ یہی طریقہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں رائج رہا ہے۔
اللہ ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق
چلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین