اسلام نے نکاح کو اللہ کی ایک نعمت اور پاکیزہ ترین
رشتہ قرار دیا ہے۔ دوسرے مذاہب کی طرح نکاح سے دوری کو کسی قسم کی نیکی اور فضیلت
کا سبب نہیں گردانا بلکہ اسے اللہ کے محبوب بندوں انبیاء اور رسولوں کی صفت بتایا،
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ
ذُرِّیَّةًؕ- (پ
13، الرعد: 38) ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو
بیوی بچوں والا بنایا تھا۔ جس طرح شوہر کے اوپر بیوی کے حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے
او پر شوہر کے بھی کچھ حقوق ہیں تا کہ ازدواجی زندگی خیر و سعادت کے ساتھ گذرے۔ ان
حقوق میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیے:
1۔ اطاعت و فرماں برداری: بیوی
کے اوپر شوہر کا اہم ترین حق یہ ہے کہ بیوی اس کی اطاعت و فرماں برداری کرے۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ
لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ
5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم
موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: سب سے بہترین عورت کون
ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت کہ شوہر جب اسے دیکھے تو عورت اسے خوش کر دے اور شوہر
جب حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال میں شوہر کا نا پسندیدہ کام
نہ کرے، اس کی مخالفت نہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)
2۔ بیوی کو اپنے ساتھ لے جانا: جس
طرح بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اس کے لئے گھر مہیا کرے،اسی طرح شوہر کا یہ حق ہے کہ
وہ بیوی کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائے۔ بیوی اس کی مخالفت کر کے کسی خاص جگہ مثلا
اپنے باپ کے گھر رہنے کے لئے اصرار نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام
کے قصہ میں اللہ تعالی نے یہ بات ذکر کی ہے کہ مدین کے نیک آدمی کی بیٹی سے جب ان
کا نکاح ہو گیا اور انھوں نے ملازمت کی شرط اور مدت مکمل کر لی تو اپنے اہل خانہ
کو اپنے آبائی وطن کی طرف لے کر چلے۔
3۔ شوہر کے مال کی حفاظت:
عورت کے پاس شوہر کا جو بھی مال ہے امانت ہے۔ اس مال میں شوہر کی مرضی کے بغیر
عورت کے لئے کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: تم میں سے
ہر شخص حاکم ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں پر حاکم
ہے، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر حاکم ہے، پس ہر شخص حاکم ہے اور
اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ (مسلم، ص 116، حديث: 1829)
4۔ کفایت شعاری: بیوی
پر شوہر کا ایک حق یہ ہے کہ وہ کفایت شعاری اور قناعت پسندی اختیار کرے اور اپنے
شوہر سے اس کی طاقت اور اپنی ضرورت سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے۔ اصل امیری دل کی
امیری ہے اور قناعت باعث سعادت ہے۔ عورت اگر حقیقت پسندی سے دور ہو کر زیب وزینت
کی عاشق ہو جائے تو دنیا وآخرت کی ہلاکت یقینی ہو جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک بار
طویل خطبہ دیا جس میں بیوی اور شوہر کے حقوق اور دنیا و آخرت کے بہت سے امور ذکر
فرمائے، آپ ﷺ نے یہ بھی ذکر فرمایا: بنو اسرائیل کی ہلاکت کا ایک سبب یہ ہوا کہ
فقیر کی بیوی بھی انہی کپڑوں اور زیورات کا تکلف کرتی تھی جن کا امیر کی بیوی کیا
کرتی تھی۔
نبی رحمت ﷺ نے اگر چہ عورتوں کو سونا اور ریشم
پہننے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے مگر آپ اپنی ازواج مطہرات کو ریشم اور زیورات سے
منع فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ: اگر تم جنت کے زیورات اور ریشم چاہتی ہو تو
اسے دنیا میں مت پہنو۔
5۔ اولاد کی تربیت عورت پر ایک حق یہ بھی ہے
کہ وہ صبر و شفقت کے ساتھ اولاد کی تربیت کرے۔ اولاد پر غصہ نہ ہو۔ انہیں چیخ کر
ڈانٹے نہیں۔ ان کو گالی نہ دے۔ ان کو مارے نہیں اور نہ ان پر بد دعا کرے۔ رسول
اللہ ﷺ نےفرمایا ہے:اپنے اوپر بددعا نہ کرو۔ اپنی اولاد پر بددعا نہ کرو۔ اپنے
خادموں پر بددعا نہ کرو۔ اپنے مالوں پر بد دعا نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ
تعالیٰ کی جانب سے دعا کی قبولیت کا وقت ہو اور وہ تمہاری بددعا قبول کرلے(پھر
تاحیات پچھتانا اور حسرت و افسوس کرنا پڑے)۔
فرمان مصطفیٰ: کسی کو جائز نہیں کہ وہ اللہ کے سوا
کسی اور کو سجدہ کرے اور اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم
دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)
ایک اور حدیث میں ہے: اگر شوہر کے نتھنوں سے خون
اور پیپ بہہ کر اس کی ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے
صاف کرے تو بھی اس کاحق ادا نہ ہوگا۔ (فتاوی رضویہ، 24/380)
اللہ پاک ہمیں حقوق العباد پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین