وعدہ کرتے وقت
اگر دل میں نیت ہے کہ جو کہہ رہی ہوں نہیں کروں گی تو یہ وعدہ خلافی ہے۔ اسی طرح
کسی سے مقررہ وقت پر آنے کا وعدہ کیا یا کسی کو رقم دینے کا وعدہ کیا لیکن دل میں
نیت ہے کہ نہیں دوں گی یہ وعدہ خلافی ہے۔
1۔ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہے نہ نفل۔ عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے
اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (بخاری، 2/370،
حدیث: 3179)
بد عہدی کے
چار اسباب ہیں: قلت خشیت یعنی خدا کا خوف نہ ہونا، دنیاوی غرض، دھوکا، جہالت۔ وعدہ
خلافی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔
2۔ رسول اللہ
ﷺ کا فرمان ہے: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے
خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33) بے
شک زبان وعدہ کرنے میں بہت زیادہ سبقت کرتی ہے پھر بعض اوقات نفس اس کو پورا نہیں
کرتا تو یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور یہ نفاق کی علامت میں سے ہے۔ اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6،
المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
3۔ سرکار
مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وعدہ کرنا عطیہ ہے۔ (موسوعۃ
ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 456) یعنی
جس طرح عطیہ واپس لینا مناسب نہیں ہے اسی طرح وعدہ کر کے بھی اس کا خلاف نہیں کرنا
چاہیے۔ (احیاء العلوم، 3/403)
ہمیں چاہیے کہ
زندگی کو شریعت کے احکامات کے مطابق گزاریں آخرت کو کثرت سے یاد کریں تاکہ دنیا
اور اس کے مال اور ساز و سامان کی محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا
ذہن بنے۔ وعدے کو معمولی جاننا غفلت ہے، اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو
سمجھنا چاہیے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے اور لوگوں کے درمیان
بھی عزت ملتی ہے، اعتماد بڑھتا ہے۔