ایک دوسرے کی
مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے
لیے ہر قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے، اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے،
مستحکم تعلقات، لین دین میں آسانی معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا قائم
ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے اسی لیے اسلام نے ایفائے عہد پر بہت زور دیا ہے،
قرآن و حدیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو۔ اللہ رب العزت کا
فرمان ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
وعدے
کی تعریف اور اس کا حکم: وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے
وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: وعدہ پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے وعدہ
کرو یا غیر سے استاذ سے کرو یا شیخ سے، نبی اور اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے
پورے کرو اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری
کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/483،492 ملتقطا)
وعدہ کے لیے
لفظ وعدہ کی ضرورت نہیں اور یہ کہنا بھی ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی
بات کی تاکید ظاہر کی وعدے کے طور پر طے کیا کہ فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہیں
کروں گا وعدہ ہو جائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں، ص 461)
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو کسی
مسلمان سے عہد شکنی کرے اس پر اللہ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا
کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 1/616، حدیث: 1870)
2۔ حضرت عبد
اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری
اس وقت کیفیت کیا ہوگی یا فرمایا قریب ہے کہ ایسا دور آئے گا اس میں لوگ الگ الگ
کر دیئے جائیں گے ان کے عہد و پیمان امانتیں ختم ہو جائیں گی اور آپس میں اختلاف
ہو جائے گا اور اس طرح ہو جائیں گے آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالا
پس صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے رسول اس حالت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
فرمایا: جو احکام تمہیں معلوم ہیں انہیں اختیار کرو اور جو تمہیں معلوم نہیں انہیں
چھوڑ دو اور جو تمہارے خاص لوگ ہیں ان کے امر کی فکر کرو اور تمہارے جو عام لوگ
ہیں ان کے امر کو چھوڑ دو۔ (ابو داود، جلد 3، حدیث: 4342)
3۔ ہر عہد شکن
کے لیے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔ (ترمذی، جلد 1، حدیث: 1518)