ایک دوسرے کی
مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے
لیے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے،
مستحکم تعلقات، لین دین میں آسانی، معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد پرسکون فضا
کا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے، اسی لیے اسلام نے ایفائے عہد پر بہت زور
دیا ہے، قرآن و احادیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو۔ اللہ
رب العزت کا فرمان ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ نبی
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند
ابو یعلی، 1/451، حدیث: 1047) احادیث میں وعدہ خلافی کی مذمت پر زور دیا گیا
ہے،جیسا کہ
فرامینِ
مصطفیٰ:
1۔ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چار صفات جس
شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک صفت ہو اس میں نفاق کا ایک
حصہ ہے حتیٰ کہ اس عادت کو چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف
ورزی کرے، جب عہد و پیمان باندھے تو اسے توڑ دے اور جب کوئی جھگڑا وغیرہ ہو تو
گالی گلوچ پر اتر آئے۔ (ابو داود، حدیث: 4088) نفاق کفر کی ایک قسم ہے اور وعدہ
خلافی کو آقا ﷺ نے نفاق قرار دیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس
قدر مذموم ہے۔
2۔ ہر عہد شکن
کے لیے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔(ترمذی، حدیث: 1518)
3۔ اس شخص کا
کچھ دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
4۔اللہ پاک
فرماتا ہے: قیامت کے دن میں تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام
پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت
کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری،
2/52، حدیث: 2227)
5۔ حضرت انس
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ بہت کم تھا کہ حضور ﷺ ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ
جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابندِ وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ (مراٰۃ
المناجیح، جلد1، حدیث: 35)
افسوس اخلاقی
انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروج ہو
گئی ہیں اور لوگوں کے ذہن میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔