ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے۔ کاروباری معاملات میں عام طور پر وعدہ وقت گزارنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ انسان کی نیت سرے سے رقم کی ادائیگی کی نہیں ہوتی اور وعدہ پورا ہونے کی تاریخ کو دوبارہ ایک نیا وعدہ کر لیا جاتا ہے۔

وعدہ خلافی کی تعریف:وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ خلافی ہے مثلاً وعدہ کیا کہ میں فلاں تاریخ کو تمہیں رقم دوں گا اور دل میں ہے کہ نہیں دوں گا۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات)

وعدہ خلافی کا حکم:وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور حرام کام ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)ترجمہ کنز الایمان:بیشک عہد سے سوال ہونا ہے۔

فرامینِ مصطفے ﷺ:

1-منافق کی تین نشانیاں ہیں:(1) جب بات کرے جھوٹ کہے۔(2)جب وعدہ کرے خلاف کرے۔(3) اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2-جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

3- ہر عہد شکنی کرنے والے کی سرین یعنی بدن کا وہ حصہ جس کے بل انسان بیٹھتا ہے اس کے پاس قیامت میں اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہوگا۔ ( مسلم،ص 106،حدیث: 1328)

4- لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔( ابوداود، 4/ 166،حدیث:4347)

وعدہ خلافی جیسے گناہ میں مبتلا ہونے کے اسباب:

1)مال کی محبت: کسی سے پیچھا چھڑانے کے لئے رقم دینے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے اور دل میں نہ دینے کا ارادہ ہوتا ہے۔

2)خود غرضی:جیسے کسی سے اپنا مطلب نکالنے کے لئے کہہ دیا کہ پہلے تم میرا یہ کام کر دو پھر میں تمہارا کام کروں گا اور دل میں ہے کہ میں بعد میں اس کا کام نہیں کروں گا۔

3 )سستی اور آرام طلبی:ایسا شخص کبھی کسی سے پیچھا چھڑانے کے لئے صرف زبان سے وعدہ کر تو لیتا ہے لیکن دل میں ہوتا ہے کہ وعدہ پورا نہیں کروں گا۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات)

وعدہ خلافی کے گناہ سے محفوظ رہنے کے لئے:آخرت کو کثرت سے یاد کیجئے تا کہ دنیا کی محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے۔وعدے کو معمولی مت جانئے۔اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھئے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے اور لوگ بھی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کی بات پر اعتماد کرتے ہیں۔ نیک خواتین کی صحبت اختیار کیجئے جن کے پاس بیٹھنے سے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات) اللہ کریم ہمیں وعدہ خلافی جیسے گناہ سے بچائے۔ ( آمین)

ارشادِ باری ہے:وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴)(پ15،بنی اسرائیل:34) ترجمہ کنز الایمان:اورعہدپوراکروبے شک عہد سےسوال ہوناہے۔

وعدے کی تعریف اور اس کا حکم:وہ بات جسے کوئی پورا کرنا خود پر لازم کرلےوعدہ کہلاتا ہے۔(معجم وسیط، 2/1007)حکیم الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔مسلمان سے وَعدہ کرو یا کافر سے،عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاذ،شیخ، نبی،اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں۔(مراٰۃ المناجیح،6/483،492،ملتقطاً)

معاشرے میں ہمیں بہت سارے لین دین کے معاملات میں ایک دوسرے سے واسطہ پڑتا ہے اور بات کی پختگی کے لیے وعدہ بھی کرتی ہیں اور وعدے کو پورا کرنا ہم پر لازم ہوجاتا ہے اور نہ کرنے کی صورت میں معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے اور آئے روز نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔قرآنِ کریم کے ساتھ ساتھ احادیثِ مبارکہ میں بھی وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے جن میں سے چند احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں:

1-حدیث شریف میں ہے:جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے،اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول نہ ہوگا نہ نفل۔(بخاری،1/616، حدیث: 1870)وعدہ کرتے وقت اگر کسی کی نیّت وعدہ خلافی کی ہو مگر اِتفاقاً پورا کردے تو پھر بھی اُس بَدنیّتی کی وجہ سے گنہگار ہے۔ ہروعدے میں نیّت کا بڑا دخل ہے۔( مراٰۃ المناجیح، 6/492)

2-نبیِّ صادق و امینﷺ کا ارشاد ہے:اس کا کچھ دِین نہیں جو وعدہ پورا نہ کرے۔ (معجم کبیر،10/227، حدیث:10553)

3-حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند امام احمد،4/271،حدیث: 12386)

4- حدیثِ مبارک ہے:جس میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے: (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3) جب معاہدہ کرے تو اسے توڑ دے اور (4) جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک حصہ موجود ہے، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ ( بخاری،2/370،حدیث: 3178)

5-حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پُرنور ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب اللہ پاک اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا تو عہد توڑنے والے ہر شخص کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا جھنڈا ہے۔(بخاری،4/146،حدیث:6177)(مسلم، ص 900، حدیث: 1735)

اس سے یہ معلوم ہوا کہ عہد شکنی کی بناپر انسان دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ذلیل ورسوا ہوتا ہے اور اللہ پاک کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔اللہ پاک ہمیں ایفائے عہد کرنے والوں میں سے بنائے۔ آمین

بیشک زبان وعدہ کرنے میں زیادہ سبقت کرتی ہے اور بعض اوقات نفس اس کو پورا نہیں کر پاتا یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور یہ نفاق کی علامت میں سے ہے۔قرآنِ پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔

وعدہ خلافی کی تعریف:وعدہ کرتے وقت ہی یہ نیت ہو کہ جو کہہ رہی ہوں وہ نہیں کروں گی تو یہ وعدہ خلافی ہے۔مثلاً وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا کر دوں گی لیکن دل میں ہے کہ نہیں کروں گی۔

وعدہ خلافی: پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور حرام کام ہے۔ اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گی تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اس کو پورا کرنا مستحب ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)

حدیثِ مبارکہ:1-فرمانِ مصطفٰے ﷺ ہے:منافق کی تین نشانیاں ہیں:1)جب بات کرے جھوٹ بولے۔ 2)جب وعدہ کرے خلاف ورزی کرے۔3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

حدیثِ مبارکہ:2-حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:وعدہ قرض کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)

حدیثِ مبارکہ:3-حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی شخص نے اپنے مسلمان بھائی سے وعدہ کیا تھا اس کا پورا کرنے کی نیت بھی ہے لیکن کسی سبب کی وجہ سے پورا نہ کر پایا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔( احیاء العلوم، جلد 3) (ترمذی،4/287،حدیث:2642)

حدیثِ مبارک:4-جھوٹ نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔(احیاء العلوم، جلد 3)

وعدہ خلافی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے اسباب:

مال کی محبت: بعض اوقات کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے رقم دینے کا وعدہ کرلیا جاتا ہے اور دل میں نہ دینے کا ارادہ ہوتا ہے۔

خود غرضی: جیسے کسی سے اپنا مطلب نکالنے کے لیے کہہ دیا کہ پہلے تو میرا یہ کام کر دو پھر میں تمہارا کام کروں گا اور دل میں ہے کہ میں بعد میں اس کے ہاتھ ہی نہیں آؤں گا۔

وعدہ خلافی کے گناہ سے محفوظ رہنے کے لئے: آخرت کو کثرت سے یاد کیجئے تاکہ دنیا اور اس کے سازو سامان کی محبت دل سے نکلے،لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے۔وعدے کومعمولی مت جانیے۔اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھیے۔ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے۔ نیک خواتین کی صحبت اختیار کیجئے۔


ایک دوسری کی مدد کے بغیر دنیا میں زندگی  گزارنا بہت مشکل ہے ، اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ بھی ہے، مستحکم تعلقات ،لین دین میں آسانی ، معاشرے میں امن اور باہمی فضا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے کے ذریعہ میں ممکن ہے ، اسی لئے اسلام نے ایفائے عہد ( وعدہ پورا کرنے ) پر بہت زور دیا ہے اور وعدہ خلافی نہ کرنے کی بہت تاکید کی ہے ۔ آئیے سب سے پہلے وعدہ کی تعریف اور اس کا حکم جانتے ہیں۔

وعدہ کی تعریف : وہ بات( یا کام) جسے پورا کرنا کوئی شخص خود پر لازم کرلے " وعدہ " کہلاتا ہے۔ ( معجم وسیط ، 2 / 1007)

وعدے کا حکم : حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعد ہ کا پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرے یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرے یا غیر سے ۔، استاد ، شیخ ، نبی ۔ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو، اگر وعدہ پورا کرنے والا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گناہگار نہیں ۔( مرآۃ المناجيح،6 /492،483)

فرمانِ باری تعالیٰ : پارہ 14 سورۃ النحل آیت نمبر 91 میں ارشاد فرمایا ترجمۂ کنز الایمان : اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بےشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے۔

اسی طرح احادیث میں بھی بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ پورا کرو نیز وعدہ خلافی سے بچنے کا حکم بھی ملتا ہے ۔ آئیے وعدہ خلافی مذمت پر چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں ۔

بہترین لوگ : پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے :تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں ( مسند ابی یعلیٰ ، 1 / 451 ،حدیث: 1047)

خالص منافق : حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : چار باتین جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے (1) جب اسے امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (3) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (4) جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ بکے ( گالی بکے )( بخاری کتاب الایمان ، باب علامۃ المنافق ، 1/25 ،حدیث: 34)

ایک جھنڈا ہوگا: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن ہے عہد شکن( وعدہ توڑنے والے ) کے لئے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔( بخاری ،4/394 ،حدیث: 6966)

تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے ۔( بخاری کتاب البیوع باب اثم من باع حرا ،2/52 ،حدیث: 2227)

تمام انسانوں کی لعنت: حضرت علی المرتضی ٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے ،جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ ہی نفل ۔( بخاری کتاب البیوع کتاب فضائل مدینہ باب حرم المدینۃ، 1/616 ،حدیث: 1870)

نوٹ: وعدہ کے لئے لفظ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اس بات کی تاکید ظاہر کی مثلاً : وعدہ کے طور پر طے کیا کہ فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہیں کروں گا وعدہ ہوجائے گا۔ ( غیبت کی تباہ کریاں، ص 461)

اللہ پاک ہمیں عہد کی پاسداری کرنے کی توفیق عطاکرے۔ اٰمین

وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو۔(پ 14، النحل : 91)

قراٰنِ کریم میں بہت سے مقام پر وعدہ کی پابندی پر زور دیا گیا ہے جو شخص وعدہ کی پابندی کرتا ہے تو اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے خوش ہوتے ہیں کیونکہ جو شخص وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے یعنی اس کو پورا نہیں کرتا تو دوسرے لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے ۔

وعدہ خلافی کی تعریف : صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعدہ کیا مگر اس کو پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت ( یعنی شرعی برائی ) تھی اس وجہ سے پورا نہیں کیا جائے گا اور وعدہ خلافی کا جو گناہ ہے اس صورت میں نہیں ہوگا ۔ اگرچہ وعدہ کرتے وقت ا س نے استثنا ء کیا ہو ، یہاں شریعت کی طرف سے استثناء موجود ہے ۔ اس کو زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں مثلاً وعدہ کیا تھا کہ میں فلاں جگہ پر آوں گا اور وہاں بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں گا " مگر جب گیا تو دیکھتا ہے کہ ناچ رنگ اور شرا ب نوشی وغیرہ میں لوگ مصروف ہیں لہذا وہاں سے چلا آیا تو یہ وعدہ خلافی نہیں ۔ یا اس کے انتظار کرنے کا وعدہ کیا اور انتظار کر رہا تھا کہ نماز کا وقت آگیا یہ چلا گیا یہ وعدہ کے خلاف نہیں ہوا ۔( بہار شریعت )

وعدہ کی مذمت احادیث کی روشنی میں :(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مبارک ہے :جس شخص میں یہ چار خصلتیں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک علامت پائی جائے گی یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے ۔ اور وہ خصلتیں یہ ہیں ۔(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (3)جب عہد کرے تو دھوکہ دے (4)جب کسی سے جھگڑے تو گالی گلو چ بکے ۔(بخاری شریف کتا ب الایمان)

(2)آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن ہر خائن (کی پہچان) کے لئے ایک جھنڈا ہوگا یہ فلاں کی خیانت ہے ۔

(3)دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے کی ایک کتاب ہے جو 207 صفحات پر مشتمل ہے جس کا نام " جہنم کے خطرات" سے یہ روایتیں ملاحظہ فرمائیں : جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل ۔( بخاری شریف )

(4) ہر عہد شکنی کرنے والے کی سرین یعنی ( بدن کا وہ حصہ جس کے بل انسان بیٹھتا ہے ) کے پاس قیامت میں ا س کی عہد شکنی کا جھنڈا ہوگا( مسلم شریف )

(5) لوگ اس وقت تک ہلاک نہیں ہو گے جب تک وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ ( سنن ابو داؤ د ) جھوٹا وعدہ کرنا حرام :ہمارے امام اہلسنت بریلی کے تاجدر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد نمبر25 صفحہ نمبر 69 پر لکھتے ہیں اشباہ والنظائر میں ہے : خلف الوعد حرام۔ یعنی جھوٹا وعدہ کرنا حرام ہے (الاشباہ و النظائر، ص 288 ،فتاویٰ رضویہ )

(6) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی بھی ہو بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔( الجامع لاخلاق الروای للخطیب البغدادی )

(7)ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے ، وعدہ پر نہ آسکے تو اس پر گناہ نہیں ۔( سنن ابو داؤد )حدیث پاک کی شرح : مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں مگر کسی مجبوری یا عذر کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گناہگار نہیں ۔ یوں ہی اگر کسی کی نیت وعدہ خلافی کی ہو مگر اتفاقا پورا کردے تو گناہگار ہے اس بد نیتی کی وجہ سے ۔ ہر وعدہ میں نیت کا بڑا دخل ہے۔ (مرآۃ المناجيح، 6 /492)

ایفائے عہد ایک نظر میں : وعدہ پورا کرنا اسلامی اخلاق کا ایک اہم جز ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیشہ وعدہ پورا فرماتے خواہ وہ مسلمان سے کیا ہوتا یا کسی اور کا فر سے ۔ اور اپنے پرائے سب اس حقیقت کے معترف تھے یہی وجہ ہے کہ ابو سفیان نے ہرقل روم کے دربار میں یہ گواہی دی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی عہد شکنی نہیں کرتے ۔

شیخ الحدیث سید تراب الحق شاہ صاحب اپنی کتاب " جمال مصطفیٰ " میں چند باتیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وعدہ پورا کرنے کے متعلق فرماتے ہیں جن میں سے ہم چند احادیث کا یہاں تذکرہ کرتے ہیں ۔

(8) حضرت عبد اللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اعلان نبوت سے قبل آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے خرید و فروخت کی اور آپ کا کچھ بقایا رہ گیا میں نے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ وہ چیز لے کر آتاہوں پھر میں بھول گیا ، تین دن بعد مجھے یاد آیا اور وہاں پہنچا تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس جگہ پر پایا آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تم نے مجھے پر مشقت ڈال دی میں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔( ابو داؤد )

(9)حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ قبول اسلام سے پہلے قریش کے سفیر بن کر مدینہ منورہ آئے نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ کفر سے نفرت ہو گئی بارگاہِ نبوی میں عرض کی یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اب واپس مکہ نہیں جاؤں گا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی قاصدوں کو اپنے پاس روکتا ہوں اب تم واپس جاؤ بعد میں چاہو تو آجانا ۔چنانچہ ابو رافع رضی اللہ عنہ واپس مدینہ چلے گئے اور دوبارہ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور قبولِ اسلام کیا ( ابو داؤد )

ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس قدر وعدہ کی پابندی کرتے تھے اور اپنے غلاموں کو بھی وعدہ کی پابندی کا حکم دیتے تھے ۔ دیکھو حدیث واضح ہے تین دن بعد بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس جگہ پر موجود تھے یہ صرف اور صرف اپنی امت کو بھی اس میں درس دیا ہے کہ وعدہ کی پابندی ضرور کیا کریں کیونکہ وعدہ کی خلاف ورزی بہت بڑا گناہ ہے ۔

عرش حق ہے مسند رفعت رسول اللہ کی

دیکھنی ہے حشر میں عزت رسول اللہ کی


کسی چیز کا وعدہ کرکے توڑ دینا وعدہ خلافی کہلاتا ہے ، وعدہ خلافی ایک عملی جھوٹ ہے ۔ اس لئے حضو ر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  اپنی اخلاقی زندگی میں وعدہ خلافی سے بچنے اور ہمیشہ وعدہ پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے ، قراٰن کریم میں اللہ پاک نے مومنو ں کی نشانی بیان کرتے ہوئی فرمایا : وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں۔(پ2،البقرۃ:177)

وعدہ پور ا کرنا اچھے اخلاق میں سے ہے ، جو لوگ وعدہ پورا کرتے ہیں اللہ پاک انہیں جنت کی خوشخبری سے نوازتا ہے اس زمانہ میں تو وعدہ خلافی کا دور دورہ بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ وعدہ خلافی کو وعدہ خلافی تصور ہی نہیں کرتے ۔ یاد رکھنا قیامت کے دن وعدہ خلافی کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا ، رب فرماتا ہے : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔( پ 15 ، بنی اسرائیل: 34)

وعدہ خلافی پر کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیے ۔منافق کی علامت:(1)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی کے اندر ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ بھی منافق ہے جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے :(1)جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔(2) بات کرے جھوٹ بولے (3) اور جب وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے (4) لڑے تو گالیاں دے ۔( صحیح البخاری ، کتاب ایمان ، حدیث 34)(2) زید بن ارقم سے رایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اذا وعد الرجل و ینوی ان یف بہ فلا جناح علیہ ترجمہ:جب آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا لیکن وہ اسے پورا نہ کرسکا تو کوئی حرج نہیں ۔(سنن الترمذی ، کتا ب ایمان ، حدیث: 2775)(3) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : العد ۃ دین۔ وعدہ ایک قرض ہے۔ (معارف الحدیث ، جراب الاخلاق قبل ایفائے ، حدیث: 356)

(4) حضرت عبد اللہ بن ابو حمسا ء سے روایت ہے کہ میں نے رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت سے پہلے آپ سے خریدو فروخت کا معاملہ کیا اور کچھ ادا کرنا باقی رہ گیا ۔ تو میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ لے کر آتا ہوں پھر میں بھول گیا اور تین دن کے بعد مجھے یاد آیا ، تو دیکھا کہ آپ اسی جگہ موجو د ہیں آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھے بڑی مشکل میں ڈالا اور بڑی زحمت دی ۔ میں تمہارے انتظار میں تین دن سے یہاں ہوں ۔اسے ابو داؤد نے بھی روایت کیا ہے ۔(معارف الحدیث ، کتاب الاخلاق فصل ایفائے عہد ،حدیث: 357)(5) روایت میں ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لا ایمان لمن لا امانۃ لہ و لا دین لمن لا عھد لہ ترجمہ: جس شخص میں امانت نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس شخص کا عہد نہیں اس کا کوئی دین ہی نہیں۔(مشکوۃ المصابیح ، کتاب االایمان ، حدیث 35)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے کتب احادیث میں وعدہ خلافی کی کتنی مذمت کی گئی ہے ۔ کاروباری ، نکاح اور قرض وغیرہ کے معاملات اسی وعدہ خلافی میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں ۔ وعدہ خلافی کی وجہ سے لوگوں کا ایک دوسروں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اگر کوئی کسی کو قرض دیتا ہے تو اس پر پہلے اعتماد تو کرنا مشکل ہوتا ہے ۔اگر اعتماد رکھ بھی لے تو دوسرا اسے قرض مقررہ وقت پر نہیں لوٹاتا۔ وعدہ خلافی سے بچنے کا درس آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیا ہے ، اور اگر خود وعدہ کی پابندی کرکے بھی دکھایا ہے ، اس کی ایک نظیر یہ ہے کہ ایک واقعہ ہے۔ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کفارِ مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرلیا ، اس کے بعد ایک صحابی کفار سے بھا گ کر آئے تو آپ نے معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے ان کو واپس کفار قریش کے حوالہ کردیا ، حالانکہ اور صحابی آپ کو روک رہے تھے ۔ یہ آپ کے وعدہ کی مثال ہے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وعدہ پورا کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے ۔ فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو اپنی طرف سے میں تمہیں جنت کی ضمانت دوں گا۔ ان میں سے ایک وعدہ کی پاسداری بھی ہے۔ یاد رکھنا کہ جو وعدہ خلافی کرتا ہے قیامت کے دن اس سے اس کے بارے ( وعدہ خلافی ) میں سوال کیا جائے گا ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں تاحیات وعدہ پورا کرنے والا اور ہمدردی کرنے والا بنائے ۔اٰمین

کچھ ظاہری گناہ ہوتے ہیں اور کچھ باطنی گناہ ہوتے ہیں ۔ ظاہری گناہوں میں سے ایک وعدہ خلافی بھی ہے۔ وعدہ کرنے میں ہر نیک عہد جائز ہیں ۔مگر افسوس عدہ پورا کرنے میں بھی ہمارا کچھ حا ل اچھا نہیں  ، بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے ۔ لیڈر قوم سے عہد کر کے توڑ دیتے ہیں اور لوگ ایک دوسروں سے عہد کر کے توڑ دیتے ہیں اور یہ مزاج (رواج ) ہماری قوم میں بھڑتا جا رہا ہیں ۔

اللہ پاک قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(پ15 ، بنی اسرائیل: 34)

آئیے وعدہ خلافی کی مذمت دیکھئے احادیث کی روشنی میں :۔(1)اللہ اور فرشتوں کی لعنت : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ اور فرشتوں کی لعنت ہے نہ اس کا کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ نفل۔ ( بخاری ،10/616 ،حدیث: 187)(2) اس کا دین نہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں ۔( مراۃ المناجيح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 1 ،حدیث:35)

(3) عذاب کا مستحق : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک فرمایا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ایک وہ جو میرے نام پر وعدہ کرے پھر عہد شکنی کرے ، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھالے تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدور ی نہ دے ۔( بخاری ، کتاب البیوع ، باب اثم من باع حرا ، 2/52، حدیث :6667)(4)ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہوگا : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔ (بخاری ، کتاب الحیل ، باب اذا غصب جا ریۃ فزعم انہا ماتت ۔۔۔ الخ ،4/394، حدیث :6966)(5) منافق کی نشانی : فرمانِ مصطفی ٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے جھوٹ بولے ۔جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے ۔اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ ( بخاری ، کتاب بدع الایمان ، باب علامۃ المنافق ۔ ص 79، حدیث: 133)

وعدہ خلا فی سے محفوظ رہنے کے لئے: (1) آخرت کو کثرت سے یاد کیجئے تاکہ دنیا اور اس کے ساز و سامان کی محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے ۔ (2) وعدہ کو معمولی مت جانئے ، اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھئے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے اور لوگ بھی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی بات پر اعتماد بھی کرتے ہیں ۔ (3)نیک لوگو ں کی صحبت اختیار کیجئے جن کے پاس بیٹھنے سے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔

اللہ پاک آپ کو اور مجھے وعدہ خلافی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔


وعدہ  کا پاس رکھنا اور اسے پورا کرنا یعنی ایفائے عہد کرنا انبیائے کرام و رسل عظام کی صفات میں سے ہے اور متقی پرہیز گاروں کی نشانیوں میں سے ہے وعدہ کو پورا کرنا اعلیٰ اخلاقی وصف، بلند پایہ اسلامی رویہ ہے۔مسلمان اپنے عہد کی حفاظت کرتا ہے اور اسے پورا کرتا ہے خواہ وہ لکھا گیا ہو یا زبانی ہو اور ایک دوسری کی مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے۔ مستحکم تعلقات لین دین میں آسانی معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے اسی لئے اسلام نے ایفائے عہد پر بہت زور دیا ہے ، قراٰن و حدیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے جب وعدہ کرو تو پورا کرو ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔

اور وعدہ خلافی کی قراٰن حدیث میں بہت مذمت بیا ن ہوئی ہے ۔

وعدہ خلافی کی تعریف :معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی ( خلاف ورزی ) کہلاتا ہے۔ ( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص170)

وعدہ خلافی کا حکم : عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام و جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ ( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 172)

وعدہ خلافی کرنے والا ملعون : حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان عہد شکنی کرے اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانو ں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ ہی نفل۔

وعدہ خلافی کرنے والا بد دین : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب بھی خطبہ ارشاد فرماتے تو ضرور فرماتے : جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں اور جو عہد کی پابندی نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں ۔( مسند احمد ،حدیث:12109)

منافق کی نشانیاں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے اور جب امانت دیا جائے تو خیانت کرے ۔( صحیح بخاری ،حدیث: 33)

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت بندے کو دوسروں کی نظروں میں عزت و وقار میں اضافہ کا سبب ہے جبکہ قول و قرار سے روگردانی اور عہد کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتی ہے اور دنیا و آخرت میں ذلت و شرمندگی کا سبب ہے لہذا جب بندہ وعدہ کرے تو اسے پورا کرے اور یہ وعدہ جائز کاموں کا ہو ۔اللہ پاک ہمیں وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین

لغوی معنی : دھوکہ دینا

اصطلاحی معنی : معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی کہلاتا ہے ( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 170)

اور اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔(پ 10، الانفال: 56)

اللہ پاک یا بندوں سے کیے ہوئے وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے اور وعدہ توڑنا ہر عقلمند کے نزدیک شرم ناک جرم ہے اور وعدہ توڑنے والا سب کے نزدیک بے اعتبار ہوجاتا ہے ۔

احادیث میں وعدہ توڑنے کی مذمت بیان کی گئی ہے اور وعدہ کی پاسداری کرنے کی تاکید فرمائی۔ جیسے (1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں : جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں اور جو پابندِ وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ ( مرآۃ المناجيح، ج1 ،حدیث: 35)

اور حدیث میں وعدہ خلافی کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ جیسے (2) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان عہد شکنی کرے اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ پاک کی اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ ( بخاری ، ج 2 ،حدیث: 3179)

ایک اور حدیث پاک میں وعدہ خلافی کرنے والے کو اللہ کا مد مقابل قرار دیا گیا ہے ۔ (3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت رسو ل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک فرماتا ہے میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا (1) وہ شخص جو میرے نام کا وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے (2) وہ شخص جو آزاد کو بیچے اور اس کی قیمت کھالے (3) وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے ۔( بخاری کتاب البیوع ،حدیث: 2227)

ایک اور حدیث میں وعدہ توڑنے کو منافق کی علامت قرار دی جیسے(4) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس میں چار عیب ہوں گے وہ نرا منافق ہے ، جس میں ایک عیب ہو اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک اسے چھوڑ نہ دے (1) جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا (3) جب وعدہ کرے گا تو خلاف ورزی کرے گا (4) جب لڑے گا تو گالی دے گا ۔(مرآۃ المناجيح، ج 1 ،حدیث: 56)

تو ان احادیث سے واضح ہو اکہ وعد ہ خلافی کرنا کسی مسلمان کی شان نہیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بد عہدی جیسے موذی مرض سے نجات عطا کرے اور ہمیں کبھی بھی کسی مسلمان کے ساتھ بد عہدی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین 

حدیث پاک (1) چار خصلتیں جس میں ہوگی وہ پکا منافق ہے :(1)بات کرے تو جھوٹ بولے (2)امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے (3)جب عہد کرے تو دھوکادہی سے کام لے (4)جب جھگڑے تو گالی بکے۔

حدیث پاک (2) ہر بد عہد کے لئے بروزِ قیامت اس کی سرین کے پاس ایک جھنڈا ہوگا کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی بد عہدی ہے سنو ! عوام کا امیر سے بد عہدی کرنے سے بڑھ کر کوئی بد عہدی نہیں ۔

حدیث پاک (3)رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: بروزِ قیامت تین لوگوں کی طرف سے میں مطالبہ کروں گا :(1) وہ شخص جسے میرے سبب عطا کیا گیا پھر اس نے بد عہدی کی ۔(2) وہ شخص جس نے آزاد شخص کو بیچ کر اس کی قیمت کھالی اور (3) وہ شخص جس نے کسی کو مزدور رکھا اور اس سے پورا پور اکام لیا مگر اُسے اجرت نہیں دی۔( اس حدیث پاک امام مسلم و بخاری نے روایت کی ہے)

حدیث پاک (4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں (1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (3) اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ (مسلم اور بخاری شریف)

(5) حدیث پاک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تین چیزیں جس شخص میں پائی گئیں وہ منافق ہے اگرچہ و ہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے (1)جب بات کی ہے تو جھوٹ بولے (2)اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (3)اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ۔ (سنن کبریٰ للبیھقی،مسلم و بخاری شریف )

مستحکم تعلقات ، لین دین میں آسانی ، معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا کا  قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے ۔ مگر افسوس وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلا فی ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے ، اور وعدہ پورا کرنے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ، پر بہت سارے لوگوں کا معمول بن چکا ہے کہ کسی کو ٹالنا ہو تو فوراً جھوٹا وعدہ کر لیتے ہیں تاکہ اس شخص سے جان چھوٹے ، اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے بچ جاتے ہیں مگر یہ غلط فہمی ہے کیونکہ وعدہ خلافی اور جھوٹا وعدہ ہمارے لئے وبالِ جان بن جاتا ہے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ وعدہ پورا کرنے کے لئے جتن کرنے سے زیادہ تناؤ ہمیں وعدہ خلافی کی بدو لت ہوتا ہے اس کی مذمت احادیث مبارکہ میں آئی ہے جو درج ذیل ہیں : (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ،ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے تیسرا وہ شخص جو مزدور سے پورا کام لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ ( مرآۃ المناجيح، جلد 4،حدیث:2984) (2)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جو کسی کا عہد توڑے تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی نہ نفل ۔( مرآۃ المناجيح، جلد 4 حدیث: 2728)(3)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ ( مرآۃ المناجيح، جلد 5،حدیث:3725)

(4)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا بلند ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔ ( مرآۃ المناجيح، جلد 5،حدیث:3726)(5)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں اور جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ (مرآۃ المناجيح، جلد 1،حدیث: 35)(6)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس میں چار عیب ہوں وہ نرا منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک عیب ہو اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے ، جب امانت دی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، جب لڑے تو گالیاں بکے۔ (مرآۃٰ المناجيح، جلد 1،حدیث :56)

اللہ پاک مجھے اور آپ کو اور ہمارے معاشرے کو اس مذموم صفت وعدہ خلافی سے نجات عطا فرمائے۔ اٰمین

وعدہ خلافی اور عہد شکنی بھی حرام اور گناہ کبیرہ  ہے کیونکہ اپنے عہد اور وعدہ کو پورا نہ کرنا مسلمان پر شرعاً واجب و لازم ہے اللہ پاک نے قراٰن مجید میں فرمایا : ترجمہ کنزالایمان: ایمان والو اپنے قول پورے کرو۔دوسری آیت میں یوں ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان: بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

حدیث(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہیں اور اس کا کوئی فرض قبول نہ ہوگا نہ نفل۔ (صحیح بخاری کتاب الجزیرہ والموادعۃ، باب اثم من عاھدثم غدر،2/370، حدیث 3179)

حدیث (2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ چار باتیں جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہوگا :(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (3) جب کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے (4) جب جھگڑا کرے تو گالی بکے (صحیح بخاری کتاب الجزیرہ والموادعۃ باب اثم من عاھدثم غدر،2/370، حدیث: 3178)

حدیث(3) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد شکنی کرنے والے کی سرین کے پاس قیامت میں اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہو گا۔ (صحیح مسلم کتاب الجھادو السیر باب تحریم الغدر ،ص 956،حدیث 1738)

حدیث(4) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اولین و آخرین کو اللہ تعالی قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والوں کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(صحیح مسلم کتاب الجھادو السیر باب تحریم الغدر ،ص955،حدیث: 1735)

حدیث(5) ایک صحابی سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔(سنن ابی داود کتاب الملاحم باب الامرو النھی،4/166، حدیث: 4347)