شناور غنی بغدادی
(درجۂ خامسہ فیضان امام غزالی گلستان
کالونی فیصل آباد پاکستان)
ایک دوسری کی مدد کے بغیر
دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے ، اس
معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اس
یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ بھی ہے، مستحکم تعلقات ،لین دین میں آسانی ، معاشرے
میں امن اور باہمی فضا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے کے ذریعہ میں ممکن ہے ، اسی لئے
اسلام نے ایفائے عہد ( وعدہ پورا کرنے ) پر بہت زور دیا ہے اور وعدہ خلافی نہ
کرنے کی بہت تاکید کی ہے ۔ آئیے سب سے
پہلے وعدہ کی تعریف اور اس کا حکم جانتے ہیں۔
وعدہ کی تعریف : وہ بات(
یا کام) جسے پورا کرنا کوئی شخص خود پر لازم کرلے " وعدہ " کہلاتا ہے۔ (
معجم وسیط ، 2 / 1007)
وعدے کا حکم : حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے
ہیں : وعد ہ کا پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرے یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرے یا غیر سے ۔،
استاد ، شیخ ، نبی ۔ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو، اگر وعدہ پورا کرنے
والا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ
کر سکے تو وہ گناہگار نہیں ۔( مرآۃ المناجيح،6 /492،483)
فرمانِ باری تعالیٰ : پارہ 14 سورۃ النحل آیت نمبر 91 میں
ارشاد فرمایا ترجمۂ کنز الایمان : اور
اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بےشک اللہ تمہارے کام
جانتا ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ
وعدہ پورا کرو نیز وعدہ خلافی سے بچنے کا حکم بھی ملتا ہے ۔ آئیے وعدہ خلافی
مذمت پر چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں ۔
بہترین لوگ : پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے :تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ
پورا کرتے ہیں ( مسند ابی یعلیٰ ، 1 / 451 ،حدیث: 1047)
خالص منافق : حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : چار باتین جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے
اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے
(1) جب اسے امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (3) جب
وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (4) جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ بکے ( گالی بکے )( بخاری
کتاب الایمان ، باب علامۃ المنافق ، 1/25 ،حدیث:
34)
ایک جھنڈا ہوگا: حضرت عبد اللہ بن عمر
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : قیامت کے دن ہے عہد شکن( وعدہ
توڑنے والے ) کے لئے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔( بخاری ،4/394 ،حدیث: 6966)
تین شخصوں کا مد
مقابل ہوں گا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن
تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے
پھر اس کی قیمت کھائے تیسرا وہ شخص جو
مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے ۔( بخاری کتاب البیوع باب اثم من باع
حرا ،2/52 ،حدیث: 2227)
تمام انسانوں کی
لعنت: حضرت علی المرتضی ٰ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے ،جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ اور
فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ ہی نفل ۔( بخاری کتاب البیوع
کتاب فضائل مدینہ باب حرم المدینۃ، 1/616 ،حدیث: 1870)
نوٹ: وعدہ کے لئے لفظ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ
انداز و الفاظ سے اس بات کی تاکید ظاہر کی مثلاً : وعدہ کے طور پر
طے کیا کہ فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہیں کروں گا وعدہ ہوجائے گا۔ ( غیبت کی تباہ کریاں، ص 461)