وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو۔(پ 14، النحل : 91)

قراٰنِ کریم میں بہت سے مقام پر وعدہ کی پابندی پر زور دیا گیا ہے جو شخص وعدہ کی پابندی کرتا ہے تو اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے خوش ہوتے ہیں کیونکہ جو شخص وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے یعنی اس کو پورا نہیں کرتا تو دوسرے لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے ۔

وعدہ خلافی کی تعریف : صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعدہ کیا مگر اس کو پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت ( یعنی شرعی برائی ) تھی اس وجہ سے پورا نہیں کیا جائے گا اور وعدہ خلافی کا جو گناہ ہے اس صورت میں نہیں ہوگا ۔ اگرچہ وعدہ کرتے وقت ا س نے استثنا ء کیا ہو ، یہاں شریعت کی طرف سے استثناء موجود ہے ۔ اس کو زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں مثلاً وعدہ کیا تھا کہ میں فلاں جگہ پر آوں گا اور وہاں بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں گا " مگر جب گیا تو دیکھتا ہے کہ ناچ رنگ اور شرا ب نوشی وغیرہ میں لوگ مصروف ہیں لہذا وہاں سے چلا آیا تو یہ وعدہ خلافی نہیں ۔ یا اس کے انتظار کرنے کا وعدہ کیا اور انتظار کر رہا تھا کہ نماز کا وقت آگیا یہ چلا گیا یہ وعدہ کے خلاف نہیں ہوا ۔( بہار شریعت )

وعدہ کی مذمت احادیث کی روشنی میں :(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مبارک ہے :جس شخص میں یہ چار خصلتیں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک علامت پائی جائے گی یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے ۔ اور وہ خصلتیں یہ ہیں ۔(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (3)جب عہد کرے تو دھوکہ دے (4)جب کسی سے جھگڑے تو گالی گلو چ بکے ۔(بخاری شریف کتا ب الایمان)

(2)آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن ہر خائن (کی پہچان) کے لئے ایک جھنڈا ہوگا یہ فلاں کی خیانت ہے ۔

(3)دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے کی ایک کتاب ہے جو 207 صفحات پر مشتمل ہے جس کا نام " جہنم کے خطرات" سے یہ روایتیں ملاحظہ فرمائیں : جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل ۔( بخاری شریف )

(4) ہر عہد شکنی کرنے والے کی سرین یعنی ( بدن کا وہ حصہ جس کے بل انسان بیٹھتا ہے ) کے پاس قیامت میں ا س کی عہد شکنی کا جھنڈا ہوگا( مسلم شریف )

(5) لوگ اس وقت تک ہلاک نہیں ہو گے جب تک وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ ( سنن ابو داؤ د ) جھوٹا وعدہ کرنا حرام :ہمارے امام اہلسنت بریلی کے تاجدر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد نمبر25 صفحہ نمبر 69 پر لکھتے ہیں اشباہ والنظائر میں ہے : خلف الوعد حرام۔ یعنی جھوٹا وعدہ کرنا حرام ہے (الاشباہ و النظائر، ص 288 ،فتاویٰ رضویہ )

(6) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی بھی ہو بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔( الجامع لاخلاق الروای للخطیب البغدادی )

(7)ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے ، وعدہ پر نہ آسکے تو اس پر گناہ نہیں ۔( سنن ابو داؤد )حدیث پاک کی شرح : مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں مگر کسی مجبوری یا عذر کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گناہگار نہیں ۔ یوں ہی اگر کسی کی نیت وعدہ خلافی کی ہو مگر اتفاقا پورا کردے تو گناہگار ہے اس بد نیتی کی وجہ سے ۔ ہر وعدہ میں نیت کا بڑا دخل ہے۔ (مرآۃ المناجيح، 6 /492)

ایفائے عہد ایک نظر میں : وعدہ پورا کرنا اسلامی اخلاق کا ایک اہم جز ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیشہ وعدہ پورا فرماتے خواہ وہ مسلمان سے کیا ہوتا یا کسی اور کا فر سے ۔ اور اپنے پرائے سب اس حقیقت کے معترف تھے یہی وجہ ہے کہ ابو سفیان نے ہرقل روم کے دربار میں یہ گواہی دی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی عہد شکنی نہیں کرتے ۔

شیخ الحدیث سید تراب الحق شاہ صاحب اپنی کتاب " جمال مصطفیٰ " میں چند باتیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وعدہ پورا کرنے کے متعلق فرماتے ہیں جن میں سے ہم چند احادیث کا یہاں تذکرہ کرتے ہیں ۔

(8) حضرت عبد اللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اعلان نبوت سے قبل آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے خرید و فروخت کی اور آپ کا کچھ بقایا رہ گیا میں نے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ وہ چیز لے کر آتاہوں پھر میں بھول گیا ، تین دن بعد مجھے یاد آیا اور وہاں پہنچا تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس جگہ پر پایا آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تم نے مجھے پر مشقت ڈال دی میں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔( ابو داؤد )

(9)حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ قبول اسلام سے پہلے قریش کے سفیر بن کر مدینہ منورہ آئے نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ کفر سے نفرت ہو گئی بارگاہِ نبوی میں عرض کی یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اب واپس مکہ نہیں جاؤں گا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی قاصدوں کو اپنے پاس روکتا ہوں اب تم واپس جاؤ بعد میں چاہو تو آجانا ۔چنانچہ ابو رافع رضی اللہ عنہ واپس مدینہ چلے گئے اور دوبارہ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور قبولِ اسلام کیا ( ابو داؤد )

ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس قدر وعدہ کی پابندی کرتے تھے اور اپنے غلاموں کو بھی وعدہ کی پابندی کا حکم دیتے تھے ۔ دیکھو حدیث واضح ہے تین دن بعد بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس جگہ پر موجود تھے یہ صرف اور صرف اپنی امت کو بھی اس میں درس دیا ہے کہ وعدہ کی پابندی ضرور کیا کریں کیونکہ وعدہ کی خلاف ورزی بہت بڑا گناہ ہے ۔

عرش حق ہے مسند رفعت رسول اللہ کی

دیکھنی ہے حشر میں عزت رسول اللہ کی