شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو جن احکامات اور اصولوں کا پابند بنایا ہے  جن کے سبب اسلامی معاشرے میں سکون اور اطمینان کی خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے اور معاشرہ پر امن بنتا ہے انہی احکامات میں سے ایک حکم افائے عہد یعنی (وعدہ پورا کرنا ) بھی ہے چونکہ انسان جب تک اس فانی دنیا میں اپنی زندگی گزارتا ہے تو اُسے اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں انسان ایک دوسرے سے لین دین کا محتاج ہوتا ہے ، اس لین دین میں اکثر عہد و پیمان کی نوبت آتی ہے اور وعده کرنے والے پر دوسرا شخص بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے اور بعض دفعہ اسی اعتماد پر بہت سارے معاملات طے کیے جاتے ہیں اسی لیے وعدے کی بڑی اہمیت ہے اسی لئے اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ رب العزّت قراٰن کریم میں فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) تَرجَمۂ کنزُ الایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے ۔(پ15، بنی اسرائیل:34)

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔(مسند ابی یعلیٰ،1/451،حدیث:1047)اسی طرح کئی احادیث و آیات قراٰنی بھی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وعدہ پورا کرنا بندے اور معاشرے پر کتنا ضروری ہے۔سید ی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ وعدہ خلافی کے متعلق حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ : (1) اگر وعدہ سرے سے صرف زبانی بطور دنیا سازی کیا اور اس وقت دل میں تھا کہ وفا نہ کرے گا تو بے ضرورت شرعی و حالتِ مجبوری سخت گناہ و حرام ہے اسی خلاف وعدہ کو حدیث میں علامات نفاق سے شمار کیا گیا ہے۔( فتاوی رضویہ، 12/281 تا 283، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

آئیے وعدہ خلافی کی مذمت پر 5 احادیث ملاحظہ کریں :(1) حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے، اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔ ( بخاری، 2/370، حدیث: 3179)(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(صحيح البخاري، كتاب الإيمان ، باب: علامۃ المنافق، حديث:33)

(3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا (یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا)۔ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑ دیا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حُرّاً، حديث:2227) (4)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سنا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔(جامع ترمذی، باب جہاد، حديث:1584)

(5) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو بدعہد ہے اس کا کوئی دین نہیں۔( معجم الكبير،10/227 ، حديث:10553)(مطلب یہ ہے کہ امانت میں خیانت کرنے والا کامل مؤمن نہیں ہو سکتا اور جو بدعہدی کرے، عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس کا کوئی دین نہیں۔ (یعنی مذہبِ اسلام اور شریعتِ اسلامیہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں)

المختصر یہ کہ وعدہ پورا کرنا اہلِ ایمان کا امتیازی وصف ہے۔ اس سے ان کی شناخت بنتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وعدہ خلافی مؤمن کی شان کے خلاف ہے۔ اگر وعدہ کسی سے کیا جائے تو اس کا پورا کرنا بلا شبہ قراٰن و حدیث کی رُو سے لازمی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ایک بد ترین خصلت ہے اور عند اللہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ یہ برائی دنیا میں موجبِ وبال ہے اور آخرت میں باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔

اللہ ربّ العزت ہم سب کو اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وعدہ خلافی کے گناہ سے محفوظ رکھے اور ہمیں ان تمام باتوں و کاموں سے دور ر ہنے کی توفیق عنایت کرے، جو اس کی ناپسندیدگی و ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ ( اٰمین یا رب العالمین )

حضرت انس رضی اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ 

اس حدیث کی شرح میں مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امانت داری اور پابندی وعدہ کے بغیر ایمان اور دین کامل نہیں، امانت میں مال و زر لوگوں کی عزت و آبرو ریزی حتی کہ عورت کی اپنی عفت سب داخل ہیں، بلکہ سارے اعمال صالحہ بھی اللہ پاک کی امانتیں ہیں۔ حضور سے عشق و محبّت حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت ہے، رب فرماتا ہے۔ " اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ "الخ۔ عہد میں میثاق کے دن رب سے عہد، بیعت کے وقت شیخ سے عہد، نکاح کے وقت خاوند یا بیوی سے عہد، جو جائز وعدہ دوست سے کیا جائے یہ سب داخل ہیں۔ ان سب کا پورا کرنا لازم اور ناجائز وعدہ توڑنا ضروری اگر کسی سے زنا، چوری، حرام خوری یا کفر کا وعدہ کیا تو اسے ہرگز پورا نہ کرے کہ یہ رب کے عہد کے مقابلے میں ہے۔ الله رسول سے وعدہ کیا ہے ان سے بچنے کا، اسے پورا کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، 1/45، حدیث: 35،نعیمی کتب خانہ گجرات )

ایک اور حدیث پاک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے ،جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں منافق کی تین ایسی علامتیں بیان کی گئیں جن کا تعلق قول عمل نیت میں سے ایک ایک سے ہے، کذب فسادِ قول ہے ،خیانت فسادِ عمل ہے اور وعدہ خلافی فسادِ نیت ہے۔جو منافق ہوگا اس میں یہ تین باتیں ضرور ہوں گی لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس میں یہ تین باتیں پائی جائیں وہ منافق بھی ضرور ہو جیسے کفار ومشرکین اس لیے اگر کسی مسلمان میں یہ باتیں پائی جائیں اسے منافق کہنا جائز نہیں ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نفاق کی علامت ہے ۔ (نزہۃ القاری،1/348)

علامہ قرطبی نے فرمایا کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں : ایک نفاق فی الاعتقاد کہ جو زبان سے اپنے آپ کو مسلمان کہے اور دل میں کفر رکھے۔ دوسر سے نفاق فی العمل، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کام کرے جو مسلمانوں کے شایان شان نہ ہو منافقین کے کرتوت ہوں جیسے یہ تینوں عیوب، جو مسلمان اس کا مر تکب ہو، وہ نفاق فی العمل کا مرتکب ہے۔ (نزھۃالقاری شرح صحیح البخاری، 1/348،حدیث: 31، فرید بک سٹال لاہور)

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگِ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں اور میرے والد حسیل رضی اللہ عنہ (جو یمان کے لقب سے معروف تھے) دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑلیا اور کہا : تم محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جانے کا ارادہ کر رہے ہو؟ ہم نے کہا : ان کے پاس جانے کا ارادہ نہیں کرتے، ہم تو صرف مدینہ منورہ جانے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کر یں گے ، ہم نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم دونوں لوٹ جاؤ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ پاک سے مدد مانگیں گے۔ (مسلم، 5/481، حدیث: 4636)

تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہمیشہ ایفائے عہد کریں اور عہد شکنی سے بچتے رہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں وعدہ خلافی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیشہ اپنے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ ربُّ العزت مؤمنین سے ارشاد فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنے قول (عہد) پورے کرو۔(پ6، المآئدۃ:1)

عُقود کے معنی ہےعہد یعنی وعدہ اور اقرار، انہیں پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے مراد کون سے عہد ہیں؟ اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں جن میں سے دو قول یہاں پر ذکر کئے جاتے ہیں:(1)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ ان عقود یعنی عہدوں سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں جو حرام و حلال کے متعلق قراٰنِ پاک میں بیان کئے گئے۔(2)بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس میں مؤمنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں۔(خازن، المآئدۃ، تحت الآیۃ:1، 1/458)

وعدے کی تعریف اور حکم وعدے کا لغوی معنی اقرار، قول و قرار،عہد، پیمان وغیرہ ہےاور اصطلاح میں کسی چیز کی امید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں۔جیسے میں تم کو کچھ دوں گا ”وعدہ“ ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/ 488 ملتقطاً) حکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔ مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاذ، شیخ، نبی، اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 6/483، 492) فتاویٰ رضویہ میں الاشباہ و النظائر کے حوالے سے لکھاہے: خُلْفُ الْوَعْدِ حَرَامٌ یعنی وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،25/69) وعدہ کیلئے لفظِ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی بات کی تاکید ظاہر کی مثلاً وعدے کے طور پر طے کیا کہ ”فُلاں کام کروں گا یا فُلاں کام نہیں کروں گا“ وعدہ ہوجائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں، ص461 ملخصاً)

وعدہ خلافی کیا ہے؟ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔ (فتاویٰ رضویہ ،10/273)

وعدہ خلافی کی مذمت احادیث کی روشنی میں وعدے کا پورا کرنا بندے کی عزّت و وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و اقرار سے رُوگردانی اور عہد (وعدہ) کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں سے گرا دیتی ہے۔ وعدہ خلافی کی مذمت کے حوالے سے 3 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:

(1)اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چار علامتیں جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان میں سے ایک علامت بھی جس میں ہوئی تو اس شخص میں نفاق کی ایک علامت پائی گئی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: (۱)جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (۲)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (۴)جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔(بخاری،1/25،حدیث:34)

(2)حُضور نبیِّ کریم، رؤفُ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس قوم نے وعدہ خلافی کی ان کے درمیان قتل و غارت عام ہو گئی اور جس قوم میں بُرائی ظاہر ہوئی اللہ پاک نے اُن پر موت کو مسلَّط کر دیا اور جس قوم نے زکوٰۃ روکی اللہ پاک نے اُن سے بارش روک لی۔(مستدرک،2/461،حدیث:2623)

(3)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے: جس نے کسی عہد والے پر ظلم کیا یا اس کا عہد توڑا یا اسے طاقت سے زیادہ کام کا پابند کیا یا اس کی خوشی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں قیامت کے دن اُس سے جھگڑا کروں گا۔ (ابوداؤد،3/230،حدیث:3052)

اللہ پاک ہمیں وعدہ خلافی سے محفوظ فرمائے۔اٰمین