نوید اختر عطّاری (دورۂ حدیث مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان
ِمدینہ فیصل آباد پاکستان)
اللہ ربُّ العزت مؤمنین سے ارشاد فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا
اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے
ایمان والو اپنے قول (عہد) پورے کرو۔(پ6، المآئدۃ:1)
عُقود کے معنی ہےعہد یعنی وعدہ اور اقرار، انہیں پورا کرنے کا حکم دیا گیا
ہے۔ اس سے مراد کون سے عہد ہیں؟ اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں جن میں سے دو
قول یہاں پر ذکر کئے جاتے ہیں:(1)حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما نے فرمایا کہ ان عقود یعنی عہدوں سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں
جو حرام و حلال کے متعلق قراٰنِ پاک میں بیان کئے گئے۔(2)بعض مفسرین کا قول ہے کہ
اس میں مؤمنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں۔(خازن، المآئدۃ،
تحت الآیۃ:1، 1/458)
وعدے کی تعریف اور حکم وعدے کا لغوی
معنی اقرار، قول و قرار،عہد، پیمان وغیرہ
ہےاور اصطلاح میں کسی چیز کی امید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں۔جیسے میں تم کو کچھ دوں گا ”وعدہ“ ہے۔(مراٰۃ
المناجیح، 6/ 488 ملتقطاً) حکیمُ الامّت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔ مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے،
عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاذ،
شیخ، نبی، اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ
رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا
مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 6/483،
492) فتاویٰ رضویہ میں الاشباہ و النظائر کے حوالے سے لکھاہے: خُلْفُ الْوَعْدِ حَرَامٌ یعنی وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،25/69) وعدہ کیلئے لفظِ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی بات کی
تاکید ظاہر کی مثلاً وعدے کے طور پر طے کیا کہ
”فُلاں کام کروں گا یا فُلاں کام نہیں کروں گا“ وعدہ ہوجائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں،
ص461 ملخصاً)
وعدہ خلافی کیا ہے؟ وعدہ
خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔ (فتاویٰ
رضویہ ،10/273)
وعدہ خلافی کی مذمت احادیث کی روشنی میں وعدے کا پورا کرنا بندے کی عزّت و
وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و اقرار سے رُوگردانی اور عہد (وعدہ) کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں
کی نظروں سے گرا دیتی ہے۔ وعدہ خلافی کی
مذمت کے حوالے سے 3 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:
(1)اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چار علامتیں جس شخص میں
ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان میں سے ایک علامت بھی جس میں ہوئی تو اس شخص میں
نفاق کی ایک علامت پائی گئی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: (۱)جب امانت دی جائے تو
خیانت کرے (۲)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (۴)جب
جھگڑا کرے تو گالی بکے۔(بخاری،1/25،حدیث:34)
(2)حُضور نبیِّ کریم، رؤفُ رَّحیم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس قوم نے وعدہ خلافی کی ان کے درمیان قتل و غارت عام ہو گئی اور جس
قوم میں بُرائی ظاہر ہوئی اللہ پاک نے اُن پر موت کو مسلَّط کر دیا اور جس قوم نے
زکوٰۃ روکی اللہ پاک نے اُن سے بارش روک لی۔(مستدرک،2/461،حدیث:2623)
(3)رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے: جس نے کسی عہد والے پر
ظلم کیا یا اس کا عہد توڑا یا اسے طاقت سے زیادہ کام کا پابند کیا یا اس کی خوشی
کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں قیامت کے
دن اُس سے جھگڑا کروں گا۔ (ابوداؤد،3/230،حدیث:3052)