وعدہ خلافی یہ ہے کہ وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا، قرآن پاک کے ساتھ ساتھ متعدد احادیث مبارکہ میں بھی وعدہ کی پابندی اور وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے جن سے اس بات کا اندازہ لگایا سکتا ہے کہ اسلام میں احترام حقوق مسلمین و حقوق انسانیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ ایک مسلمان کے ساتھ وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا کرنا یہ اس کا حق ہے ورنہ اس کے ساتھ دھوکے بازی اور غداری کہلائے گی جس کی بہت مذمت ہے کہ بد عہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو کسی مسلمان کے ساتھ وعدہ خلافی کرے گا اس پر اللہ، فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت ہے نہ اس کے فرض قبول نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

2۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی کو کوئی رخصت نہیں: والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر، وعدہ پورا کرنا خواہ مسلمان سے کیا ہو یا کافر سے، امانت کی ادائیگی چاہے وہ کافر ہو یا مسلمان۔ (شعب الایمان، 4/82، حدیث: 4363)

3۔ بد عہدی کرنے والے ہر شخص کے لیے قیامت کے دن اس کی بد عہدی کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا۔ (ابن ماجہ، ص 265، حدیث: 2873)

4۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

5۔ جس نے کسی مسلمان کے ساتھ بد دیانتی کی یا اسے نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (جامع الاحادیث للسیوطی، 5/1849، حدیث: 1963)

خلاصہ کلام: خلاصہ کلام یہ ہے کہ وعدہ خلافی کی جو مذمت وارد ہوئی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا کرنا چاہیے وہ مسلمان سے کیا ہو یا کافر سے یہ اس کا حق ہے کہ اسے پورا کیا جائے ورنہ وعیدات کے مستحق ہوں گے کہ وعدہ پورا نہ کرنے والے کا کوئی فرض و نفل قبول نہیں اور اس پر اللہ و رسول، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور بد عہدی کو منافقت کی علامت بھی کہا گیا ہے۔

اللہ پاک ہمیں حقوقِ انسانیت کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

الحمدلله ہم مسلمان اور امتِ محمدی ہیں۔ ہمارے پیارےنبی ﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے جب بھی ارشاد فرمایا حق اور سچ فرمایا۔جب بھی کوئی وعدہ فرمایا تو پورا فرمایا۔ امت ِمحمدی ہونے کی نسبت سے ہمیں وعدہ خلافی زیب نہیں دیتی۔ ہم جو بھی بات کریں پورا کرنے کی نیت سے ہی کریں۔اگر ہم وعدہ کرتے ہوئے ان شاء اللہ بولیں گی تو اللہ پاک کی مدد بھی ان شاء اللہ شاملِ حال ہوگی۔ وعدہ خلافی کی وعیدات بھی آئی ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ہمیں بات وہی کرنی ہوگی جو ہم پورا کر سکیں اور جو بات کرلیں تو پورا کرنا فرضِ عین سمجھیں۔ وعدہ پورا کرنے سے ہماری ہی شخصیت نکھرتی ہے نیز استقامت و اخلاص کا جذبہ بھی بڑھتا ہے۔کافر بھی ہمارے نبیﷺ کی امانت داری اور صداقت کی گواہی دیتے تھے۔اگر ہم انہی کی امتی ہوتے ہوئے عہد شکنی کریں گی تو آج کے غیر مسلم یہی گواہی دیں گے کہ فلاں مسلمان ہو کر وعدہ خلافی کرتی ہے۔ایک مسلمان سے تو اعتبار اٹھے گا ساتھ میں ہماری انسانیت اور شخصیت پر بھی دھبا لگے گا۔ جو بات ہم پوری نہیں کر سکتیں تو وہ بات ہمیں کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

ہم نے دنیاوی محاورہ کئی بار سنا ہوگا کہ جان جاتی ہے چلی جائے لیکن زبان نہ جائے مزید یہ بھی سنا ہوگا کہ انسان اپنی زبان سے ہی پہچانا جاتا ہے۔یہ تو بات دنیا کی ہے۔ذرا آخرت کے بارے میں سوچا جائے تو دل عذابات کو پڑھ اورسُن کر دہل جاتا ہے اور ایک مسلمان وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہمیں ان شاء اللہ دینِ اسلام کا جھنڈا بلند رکھنا ہے۔ اپنے اعمال و کردار،قول و فعل سے ہماری شخصیت ہماری پہچان ہوتی ہے اور ہماری شخصیت سے دینِ اسلام جھلکتا نظر آئے۔ کیونکہ ہماری پہچان ہی ہمارا دین ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو دینِ اسلام میں اخلاص اور استقامت عطا فرمائے۔آمین

عہد شکنی کی کچھ وعیدات درج ذیل ہیں:

1-حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(بخاری، 4 / 149، حدیث: 6177)

2-ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے اس پر اللہ پاک،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول نہ ہوگا نہ نفل۔ (بخاری،1/616، حدیث:1870)

3-ارشاد فرمایا: لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں۔ (ابوداود،4/ 166،حدیث: 4347)

4-ارشاد فرمایا:وعدہ قرض کی مانند ہے۔ہلاکت ہے اس کے لیے جووعدہ کرے اورپھر اس کے خلاف کرے۔ اس کے لیے ہلاکت ہے۔ اس کے لیے ہلاکت ہے۔(معجم اوسط،2/ 351،حدیث: 3514)

5-ارشاد فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں:1)جب بات کرے جھوٹ بولے۔2 )جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔ 3) جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)


وعدہ خلافی حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔کیونکہ اپنے وعدے کو پورا کرنا مسلمان پر شرعاً واجب و لازم ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔

وعدہ کی تعریف:کسی چیز کی اُمید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں۔ ( مراٰة المناجيح،6/336)

وعدہ خلافی کسے کہتے ہیں؟وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو۔ ( الجامع الاخلاق )

وعدہ خلافی کی مذمت پر احادیث:

1)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان وعدہ خلافی کرے، اس پراللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا اور نہ کوئی نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

2)حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب اولین و آخرین کو اللہ پاک جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

3) ایک صحابی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔(ابو داود، 4/166، حدیث: 4347)

4) روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو، پھر پورا نہ کر سکے، وعدہ پر نہ آسکے تو اس پر گناہ نہیں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4995)

5) مروی ہے کہ جو کسی شخص سے وعدہ کرے، پھر ان میں سے ایک نماز کے وقت تک نہ آئے اور جانے والا نماز کے لیے چلا جائے تو اس پر گناہ نہیں۔ ( مراة المناجيح، 6 / 339)

وعدہ خلافی سے بچنے کا درس: وعدہ خلافی کرنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ تو سب کو چاہیے کہ اس منافقت سے بچے۔کیونکہ جب ایک شخص وعدہ خلافی کرتا ہے تو دوسرے کا اس پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ پھر جس نے وعدہ خلافی کی ہوتی ہے اس کے متعلق طرح طرح کے گمان آتے ہیں مثلاً اگر یہ وعدہ خلافی کر سکتا ہے تو یہ اور گناہوں میں بھی ضرور ملوث ہو گا۔ پھر اس سے لوگ بچنا شروع کر دیتے ہیں۔ وعدہ خلافی کرنے والے کی لوگوں کی نظروں میں عزت کم ہو جاتی ہے کیونکہ ایسا شخص اپنا اعتبار کھو دیتا ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بُری عادات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وعدہ خلافی حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔کیونکہ اپنے وعدے کو پورا کرنا مسلمان پر شرعاً واجب و لازم ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔

وعدہ کی تعریف: کسی چیز کی امید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں۔ ( مراٰة المناجيح،6 /336)

وعدہ خلافی کسے کہتے ہیں؟وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو۔ (الجامع الاخلاق )

وعدہ خلافی کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:

1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان وعدہ خلافی کرے اس پراللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا اور نہ کوئی نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

2)رسولِ اکرم،شاہِ بنی آدم ﷺ نے ارشاد فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں:(1)جب بات کرے تو جھوٹ کہے (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے (3) اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3)حضرت عبد اللہ بن ابوالحمساء رضی للہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور نبیِّ اکرم ﷺ سے آپ کی بعثت سے پہلے کوئی چیز خریدی جس کا کچھ بقایا رہ گیا،میں نے وعدہ کیا کہ اسی جگہ آپ کے پاس لے کر حاضر ہوتا ہوں لیکن میں اس دن بھول گیا اور اس کے اگلے دن بھی مجھے خیال نہ آیا، پھر میں تیسرے دن آپ کے پاس آیا تو آپ اسی جگہ موجود تھے اور ارشاد فرمایا:اے نوجوان!تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا میں یہاں تین دن تمہارا منتظر ہوں۔(ابوداود، حدیث: 4996)

4) حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:جب اولین و آخرین کو اللہ پاک جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

5) ایک صحابی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود، 4/166، حدیث: 4347)

وعدہ خلافی سے بچنے کا درس:اللہ پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کا حکم معلوم ہونے کے بعد قبول کرنے سے دل کی تنگی محسوس کرنا منافقت کی علامت ہے۔ہمارے معاشرے میں یہ مرض بڑی شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے اور اسی مرض کی وجہ سے اللہ پاک کے احکام پر عمل مشکل ہو گیا ہے۔ کامل مسلمان کی شان یہ ہے کہ جب اللہ پاک کا حکم معلوم ہو جائے تو اس کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دے اور اس کے احکام پر عمل کرے۔اللہ کریم ہمیں وعدہ خلافی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام باطنی امراض سے نجات عطافرمائےاورہم سب پراپناخاص فضل وکرم فرمائے۔آمین یارب العلمین 

وعدہ کرتے وقت ہی یہ نیت ہو کہ جو کہہ رہی ہوں نہیں کروں گی تو یہ وعدہ خلافی ہے۔(شیطان کے بعض ہتھیار،ص 42) وعدہ خلافی کا مرض ہمارے معاشرے میں بہت بُری طرح سے اثر انداز ہورہا ہے۔یہ ایک انتہائی مہلک گناہ ہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کو گناہ ہی نہیں سمجھا جارہا۔اکثر لوگ وعدہ تو کر لیتے ہیں۔لیکن نفس کی شرارت کی وجہ سے اس کو پورا نہیں کر پاتے۔حالانکہ اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔

احادیث میں بھی وعدہ پورا کرنے اور وعدہ خلافی نہ کرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے:

1-منافق کی تین نشانیاں ہیں:(1) جب بات کرے جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔(3) جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2-وعدہ قرض کی مثل بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)

3- ایک صحابی فرماتے ہیں:میں نے نبیِ کریمﷺ سے آپ کی بعثت سے پہلے کوئی چیز خریدی، جس کا کچھ بقایا رہ گیا۔ میں نے وعدہ کیا کہ اسی جگہ لے کر حاضر ہوتا ہوں۔ لیکن میں اس دن بھول گیا اور اس سے اگلے دن بھی مجھے خیال نہ رہا۔ میں تیسرے دن آپ کے پاس حاضر ہوا تو حضور اسی جگہ موجود تھے اور ارشادفرمایا: اے نوجوان!تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا !میں یہاں تین دن سے تمہارا منتظر ہوں۔ (ابو داود، ص380، حدیث: 4996)

4-وعدہ کرنا عطیہ ہے۔(موسوعۃ لابن ابی الدنیا،7 /267،حدیث:456)یعنی جس طرح عطیہ دے کر واپس لینا مناسب نہیں اسی طرح وعدہ کر کے اس کا خلاف نہیں کرنا چاہئے۔(احیاء العلوم،3 /403)

5- چار عادتیں جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک بھی عادت ہوگی اس میں نفاق کی علامت ہے حتی کہ اسے چھوڑ دے: 1) بات کرے تو جھوٹ بولے۔2)وعدہ کرے تو خلاف کرے۔ 3)عہد کرے تو عہد شکنی کرے۔ 4)جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔( نسائی،ص 804، حدیث: 5030)

وعدہ خلافی منافقین کی علامت ہے لہٰذا مومنین کو اس سے بچنا چاہیے۔ اللہ کریم ہمیں اپنے وعدے وفا کرنا نصیب فرمائے اور وعدہ خلافی جیسی مذموم بیماری سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العلمین ﷺ


وعدہ پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا حرام کام ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34) لیکن افسوس کہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ لیڈر قوم سے عہد کر کے توڑ دیتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے عہد کر کے توڑ دیتےہیں۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ( پ15،بنی اسرائیل:34) ترجمہ کنز الایمان: بیشک عہد سے سوال ہوناہے۔ اس آیت میں عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے خواہ وہ اللہ پاک کا ہو یا بندوں کا ہو۔ اللہ پاک سے عہد اس کی بندگی اور اطاعت کرنے کا ہے۔

وعدہ خلافی کی تعریف:وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہی ہوں وہ نہیں کروں گی تو یہ وعدہ خلافی ہے۔ (شیطان کے بعض ہتھیار، ص 42)

وعدہ خلافی کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:

1-سرکارِ مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَلْعِدَةُ عَطِیَّةٌ یعنی وعدہ کرنا عطیہ ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 456) یعنی جس طرح عطیہ دے کر واپس لینا مناسب نہیں اسی طرح وعدہ کر کے بھی اس کا خلاف نہیں کرنا چاہئے۔(احیاء العلوم، 3/403)

2-مصطفٰے جانِ رحمت، شمع بزمِ ہدایت ﷺ نے ارشاد فرمایا:وعدہ قرض کی مثل بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)

3 - رسولِ اکرم،شاہِ بنی آدم ﷺ نے ارشاد فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں:(1)جب بات کرے تو جھوٹ کہے(2)جب وعدہ کرے خلاف کرے(3)اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

4 -حضرت عبد اللہ بن ابو الحَمْسَاء رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:میں نے حضور نبیّ اکرم ﷺ سے آپ کی بعثت سے پہلے کوئی چیز خریدی جس کا کچھ بقایا رہ گیا،میں نے وعدہ کیا کہ اسی جگہ آپ کے پاس لے کر حاضر ہوتا ہوں۔لیکن میں اس دن بھول گیا اور اس کے اگلے دن بھی مجھے خیال نہ آیا۔ پھر میں تیسرے دن آپ کے پاس آیا تو آپ اسی جگہ موجود تھے اور ارشاد فرمایا:اے نوجوان!تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا!میں یہاں تین دن سے تمہارا منتظر ہوں۔( ابو داود، حدیث: 4996)

5-حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تمہیں اتنا، اتنا اور اتنا دوں گا۔پھر بحرین سے مال آنے سے پہلے ہی نبیِ کریم ﷺ کا وصال ہو گیا۔ جب بحرین سے مال آیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جس شخص کا نبیِ کریم ﷺ سے کوئی وعدہ ہو یا اس نے آپ سے قرض لینا ہو تو وہ ہمارے پاس آجائے۔میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا: نبی ِکریم ﷺ نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ جب بحرین سے مال آئےگا تو میں تمہیں اتنا،اتنا اور اتنا دوں گا تو انہوں نے دونوں لب بھر کر مجھے دیئے۔ میں نے انہیں گنا تو وہ پانچ سو تھے۔انہوں نے مجھ سے فرمایا:تم اس کے دوگنا اور لے لو۔(ریاض الصالحین، ص 419)

وعدہ خلافی سے بچنے کا درس:اللہ پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کا حکم معلوم ہونے کے بعد قبول کرنے سے دل کی تنگی محسوس کرنا منافقت کی علامت ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ مرض بڑی شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے اور اسی مرض کی وجہ سے اللہ پاک کے احکام پر عمل مشکل ہو گیا ہے۔ کامل مسلمان کی شان یہ ہے کہ جب اللہ پاک کا حکم معلوم ہو جائے تو اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اور اس کے احکام پر عمل کرے۔ اللہ پاک مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں نفاق اور منافقوں جیسے کام کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین

وعدہ خلافی ایک بُر ا فعل ہے جس کو کرنے سے انسان گناہگار ہو جاتا ہے۔وعدہ کر کے پورا کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے بارے میں سوال ہونا ہے۔وعدہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ بات جیسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کرلے وعدہ کہلاتا ہے۔اگر کوئی شخص دوسرے کو کہے کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہ کام ضرور کروں گا اور اس نے یہ کام نہ کیا تو وہ سخت گناہگار ہوگا۔ اس لیے جو وعدہ کیا جائے اسے پورا بھی کیا جائے۔ اس کے بارے میں قیامت کے روز سوال ہونا ہے۔الله پاک کا فرمانِ عالی شان ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ وعدہ خلافی کے بارے میں نبیِ کریم ﷺ کے پانچ فرامین ملاحظہ ہوں:

1-نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:عہد توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گھاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔( بخاری،حدیث: 6178)

2-نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں:1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔2 )جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔3 )جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3-نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:تم اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے ایسا مذاق کرو جو جھگڑے کا سبب بنے اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کرسکو۔ (ترمذی،حدیث: 1995)

4- نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔(مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث: 1047)

5-نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:اس شخص کا دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر،10/227، حدیث: 10553)جیسا کہ ہمیں نبیِ کریم ﷺ کے فرامین سے پتہ چلا کہ وعدہ خلافی کرنے والے کا نام قیامت کے دن کس طرح پکارا جائے گا اور جو وعدہ خلافی کرتا ہے اسے نبیِ کریم ﷺ نے منافق کی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ وعدہ ایسا کریں جو پورا کر سکیں۔اگر آپ کو معلوم ہے کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتیں تو وعدہ بھی نہ کیا جائے،اس سے بچنا بہتر ہے۔اللہ پاک نے بھی قرآنِ پاک میں فرمایا ہے کہ وعدے کے بارے میں سوال ہونا ہے۔ تو اس لیے وعدہ کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ کیا یہ کام میں کر سکوں گی ؟ تب ہی وعدہ کیا جائے۔ اللہ پاک ہمیں ہر گناہ سے بچنے اور ایمان پر قائم رہنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ بھی ایمان پر ہو۔آمین

ہمارے معاشرے میں جوبُرائیاں پائی جاتی ہیں،ان میں سے ایک بڑی بُرائی وعدہ خلافی یا کسی سے کیے ہوئے معاہدے کو جانتے بوجھتے ہوئے پورا نہ کرنا ہے۔ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے۔اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ15،بنی اسرائیل: 34)ترجمہ: اور عہد پورا کروبےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔

وعدہ کی تعریف:لغت میں اچھی چیز کی امید دلانے یا بُری چیز سے ڈرانے کو عہد کہا جاتا ہے۔اصطلاح میں کسی چیز کی اُمید دلانے کو عہد(وعدہ) کہتے ہیں۔

وعدہ خلافی کی تعریف:معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا وعدہ خلافی کہلاتا ہے۔

وعدہ خلافی کی تین صورتیں ہیں:

1)وعدہ کرتے وقت ہی دل میں یہ ہو کہ میں نے وعدہ پورا نہیں کرنا۔یہ صورت ناجائزوگناہ ہے۔ جبکہ بلا اجازتِ شرعی ہو۔حقیقت میں یہی وعدہ خلافی ہے۔2)دوسری صورت یہ ہے کہ وعدہ کرتے وقت دل میں پکا ارادہ ہے کہ میں یہ وعدہ پورا کروں گی۔ پھرکسی ایسے عذرکی وجہ سے وعدہ پورا نہ کرسکی کہ وہ عذر وعدہ پورا کرنے سے زیادہ ترجیح رکھتا ہے تو اب کوئی گناہ نہیں ہے۔بلکہ کوئی کراہت بھی نہیں ہے۔3)تیسری صورت یہ ہے کہ بغیرکسی عذرکے ہی وعدہ پورا نہ کیا تو یہ صورت بھی اگرچہ گناہ نہیں ہے، مگرمکروہِ تنزیہی ہے۔

وعدہ خلافی کی مذمت پر 5 فرامین مصطفٰے:

1-آپﷺ نے فرمایا:منافق کی علامتیں تین ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے۔جب وعدہ کرے اس کا خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2-حدیثِ پاک میں ہے:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو اپنے عہد کا پابند نہ ہو اس کا دین میں کوئی حصہ نہیں۔جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جو عہد کو پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔وعدہ کی پاسداری ایمان کے کمال کی نشانی ہے اور وعدہ خلافی کی عادت منافقوں کا شیوہ ہے۔( مشکوۃ المصابیح،ص 15)

3-حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے، اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

4-رسول اللہﷺ نے فرمایا: عہد توڑنے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔ ( بخاری،حدیث:6178)

5- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا:ایک وہ جو میرے نام پر وعدہ دے،پھر عہد شکنی کرے۔دوسرا وہ جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے۔تیسرا وہ جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52،حديث: 2227)

درس:انسان کے کردار کی پختگی اس کی زبان سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جہاں تک وعدہ پورا کرنے کا معاملہ ہے یقین جانیں کہ جس وقت آپ یہ عہد کرلیں گی کہ اب کسی سے جھوٹا وعدہ نہیں کریں گی یا کسی سے کیا ہوا وعدہ نہیں توڑیں گی تو آپ کے معاملات درست ہوتے جائیں گے۔ آپ کے ارادہ کا اخلاص آپ کو وہ کچھ عطا کرے گا جسے دنیا کا اعتماد اور اطمینانِ قلب کہا جاتا ہے۔اللہ ہم سب کو اپنے وعدوں پر قائم رہنے اور اسے تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلامی معاشرے کا ہر فرد ذمےدار فرد ہونے کی حیثیت سے جو عہدو پیمان کسی سے کرتا ہےاس کو انجام دینا مومن کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔جبکہ وعدہ خلافی کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔دل و زبان سے کسی کام کو پورا کرنے کا اقرار کرناوعدہ کہلاتا ہے۔اسی طرح کسی کام کو پورا کرنے کا زبان سے تو اقرار کیا جائے، لیکن دل میں(نیت) اس کو پورا کرنے کی نہ ہووعدہ خلافی و بدعہدی کہلاتا ہے۔

وعدہ خلافی:معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا وعدہ خلافی کہلاتا ہے۔خواہ وہ بندے سے کیا ہوا جائز عہد توڑا جائے یا اللہ پاک سے کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی جائے دونوں ہی انتہائی مذموم ہیں۔

عہد کی خلاف ورزی سے متعلق آیتِ مبارکہ:اللہ پاک قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶) (پ 10، الانفال: 55-56) ترجمہ کنز الایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔

آیتِ مبارکہ کی روشنی میں ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو کفر کرتے ہیں وہ خدا کو ایک نہیں مانتے،اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور لوگوں سے وعدہ کرکے اس کو پورا نہیں کرتے۔وعدہ کرکے ظاہری طور پر راضی ہو جاتے ہیں۔لیکن نیت ہوتی ہے کہ اسے پورا نہیں کریں گے اور بعض تو لوگوں کو دھوکہ میں رکھنے کے لیے،اپنا مطلب و کام نکلوانے یا پھر جان چھڑانے کی غرض سے وعدہ کر بیٹھتے ہیں۔ مگر افسوس!وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے عہد کر کے توڑ دیتے ہیں۔

عہد کی خلاف ورزی کے متعلق کچھ احادیث:

1-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آپ ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:منافق کی تین نشانیاں ہیں:1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔2)جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے۔3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2-حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حديث: 3179)

3-حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آپ ﷺ نے فرمایا:جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند امام احمد، 4/271،حدیث:12386)

ایفائے عہد:انسانوں کے باہمی تعلقات میں ایفائے عہد یعنی وعدہ پورا کرنے کو جو اہمیت حاصل ہے وہ محتاجِ بیاں نہیں۔ہمارے اکثر معاملات کی بنیاد وعدوں پر ہوتی ہے۔اگر یہ پورے ہوتے رہیں تو معاملات ٹھیک رہتے ہیں لیکن اگر ان کی خلاف ورزی ہو تو سارے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اسی بگاڑ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اسلام ایفائے عہد کی تلقین کرتا ہے۔

ایفائے عہد کے متعلق چند آیات:

1-قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ آیتِ مبارکہ کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم جو جائز عہد کرتی ہیں یا پھر اللہ پاک سے (اس کی بندگی و اطاعت) ان دونوں صورتوں میں عہد پورا کرنے کا حکم ہے۔

2-ارشادِ باری ہے: الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَۙ(۲۰) وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ (پ13،الرعد:20-21) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور قول باندھ کر پھرتے نہیں اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ آیتِ مبارکہ کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس میں باہمی معاہدوں اور اجتماعی رشتوں کی پاسداری رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔اگر دیکھا جائے تو آپ ﷺ کے ہر قول و فعل سے معلوم ہوتا ہے آپﷺ نے سخت سے سخت حالات میں بھی عہد کی پابندی فرمائی ہے۔

بد عہدی کا حکم:عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، 1 / 652)

عہد شکنی کی مذمت:بندوں سے کیا ہوا جائز عہد توڑا جائے یا اللہ سے کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی جائے دونوں کے بارے میں (عہد شکنی) کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔

عہد شکنی کی مذمت پر حدیث:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے:میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا: ایک وہ جو میرے نام پر وعدہ دے،پھر عہد شکنی کرے۔ دوسرا وہ جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے۔تیسرا وہ جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52،حديث: 2227)

عہد شکنی پر وعید:حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائےگا۔(بخاری،4/394، حديث: 6966)

نوٹ:جاننا چاہیے کہ بغیر کچھ جانے کسی کو بھی ہم جھوٹی یا وعدہ خلافی کرنے والی یا دھوکے باز جیسے الفاظ نہیں کہہ سکتیں یا اس کے بارے میں ایسا نہیں سوچ سکتیں۔مثال کے طور پر آپ سے کسی نے ملنے کا وعدہ کیا اس کی نیت اور ارادہ ملنے کا تھا لیکن اگر وہ کسی آزمائش مثلاً ملنے کے وقت سے کچھ وقت پہلے آنکھ لگ جانے یا سواری نہ ملنے کی صورت میں نہ آسکی اس صورت میں اسے وعدہ خلاف نہیں کہیں گی۔

حاصل کلام:ہمارے لین دین کے معاملات چاہے وہ دینی اعتبار سے ہوں یا دنیاوی اعتبار سے باہمی حقوق ایفائے عہد ہی کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے دینداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان سب کی پاسداری کریں۔ اللہ پاک ہمیں عہد کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


کسی سےوعدہ کرکے اس کا خلاف کر نا شرعاً بہت بُرا اور بلاوجہِ شرعی ہو تو اسے نفاق ِ عملی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔لیکن وعدہ پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت تھی، اس وجہ سے پورا نہیں کیا تو اس کو وعدہ خلافی نہیں کہا جائے گا اور وعدہ خلافی کا جو وبال و گناہ ہے وہ اس صورت میں اس پر نہ آئے گا۔ اگرچہ وعدہ کرتے وقت اس نے استثناء (ان شاء اللہ یا کوئی اور کلمہ وغیرہ کہنا ) نہ کہا ہو کیونکہ یہاں شریعت کی طرف سے استثناء موجود ہے اس کو زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں مثلاً تم نے اپنی کسی دوست سے وعدہ کیا تھا کہ میں فلاں جگہ مثلاً اپنےماں باپ یا بھائی کے گھر ملوں گی، وہاں تمہارا انتظار کروں گی، مگر جب آ ئی تو دیکھا کہ ناچ رنگ کی محفل جمی ہوئی ہے، یا گھر والے ایسے کاموں میں مصروف ہیں جو شرعاً جائز نہیں اس لیے تم وہاں سے چلی گئی تو یہ وعدہ خلافی نہیں اور نہ کوئی تم پر وعدہ خلافی کا الزام دے سکتا ہے کہ شریعت ایسے مقامات سے دور بھاگنے کا حکم دیتی ہے نہ کہ وہاں شرکت کرنے اور ایسی محفلوں کی رونق بڑھانے کا۔( سنی بہشتی زیور، ص 555)

پارہ 16 سُورَۂ مَریم کی آیت نمبر 55،54میں ارشادِباری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمہ:اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھااور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رَبّ کو پسند تھا۔

فرمانِ مصطفٰےﷺ:منافق کی تین نشانیاں ہیں:(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (2)جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

وعدہ خلافی کے متعلق احکام:وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور حرام کام ہے۔ اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے۔ جب وعدے کو کسی چیز کے حاصل ہونے یا حاصل نہ ہونے کے ساتھ معلق کیا گیا ہو تو جب وہ شرط پائی جائے گی وعدہ پورا کرنا لازم ہوگا مثلاً کسی سے کہا کہ یہ چیز فلاں شخص کوبیچ دو۔ اگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو میں ادا کر دوں گا۔ پھر خریدنے کی جگہ خریدار نے قیمت ادا نہیں کی تو اب اس پر قیمت ادا کرنا لازم ہے۔ ( ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34 )

وعدہ خلافی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب:

1-مال کی محبت: بعض اوقات کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے رقم دینے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے اور دل میں نہ دینے کا ارادہ ہوتا ہے۔

2-خود غرضی:جیسے کسی سے اپنا مطلب نکالنے کے لئے کہہ دیا کہ پہلے تم میرا یہ کام کر دو پھر میں تمہارا کام کر دوں گا اور دل میں ہے کہ میں بعد میں اس کے ہاتھ ہی نہیں آؤں گا۔

3-سستی اور آرام طلبی: ایسا شخص کبھی کسی سے پیچھا چھڑانے کے لئے محض زبان سے وعدہ کر تو لیتا ہے لیکن دل میں ہوتا ہے کہ وعدہ پورا نہیں کروں گا۔

وعدہ خلافی کے گناہ سے محفوظ رہنے کے لئے:آخرت کو کثرت سے یاد کیجئے تاکہ دنیا اور اس کے سازو سامان کی محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے۔وعدے کومعمولی مت جانیے۔ اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھئے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے اور لوگ بھی وعدہ نبھانے والےکو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی بات پر اعتماد کرتے ہیں۔نیک لوگوں کی صحبت کو اختیار کیجئے جن کے پاس بیٹھنے سے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔

حاصل کلام:وعدے کے مختلف احکام ہیں۔ کبھی حرام ہے،کبھی مستحب ہے،جھوٹ بھی ہوسکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اگر وعدہ کیا جائے تو پورا کرنا چاہیے۔کیونکہ وعدہ پورا نہ کرنے کو حدیثِ پاک میں منافق کی نشانیوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔قرآنِ پاک میں بھی تاکید کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وعدہ خلافی سے بچنا چاہیے۔ جو لوگ وعدہ پورا نہیں کرتے وہ اپنا اعتماد بھی کھو دیتے ہیں۔ معاشرے میں بگاڑ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وعدہ کرکے اسے پورا نہ کیا جائے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات)(سنی بہشتی زیور )

وہ بات جسے پورا کرنا کوئی شخص خود پر لازم کرلےوعدہ کہلاتا ہے۔(معجم وسیط،2/1007)

حکیم الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔ مسلمان سے وَعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاذ، شیخ، نبی، اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/ 483-492، ملتقطاً)

خیال رہے کہ وعدہ کے لئے لفظِ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی بات کی تاکید ظاہر کی مثلاً وعدے کے طور پر طے کیا کہ فُلاں کام کروں گی یا فُلاں کام نہیں کروں گی تو یہ بھی وعدہ ہوجائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں، ص461 ملخصاً) قرآن و حدیث میں وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وعدہ خلافی کی مذمت کی گئی ہے۔ وعدہ خلافی کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

1-حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے، اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔(بخاری،2/370، حدیث:3179)

2- حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِ کریم، رؤف رحیم ﷺنے ارشاد فرمایا:چار علامتیں جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان میں سے ایک علامت ہوئی تو اس شخص میں نفاق کی ایک علامت پائی گئی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے: (1)جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(3)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (4)جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔ (بخاری،1/ 24،حدیث: 33)

3-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

4- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدِّ مقابل ہوں گا:ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے۔ دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے۔ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔(بخاری،2 / 52، حدیث: 2227)

5- حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیِ کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے، جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ پاک،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ نفل۔(بخاری،1 / 616، حدیث: 1870)اللہ پاک ہمیں وعدہ خلافی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ 


قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ15،بنی اسرائیل: 34)تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور عہد پورا کرو بیشک عہد سے سوال ہونا ہے۔

وعدے کی تعریف اور اس کا حکم:وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لےوعدہ کہلاتا ہے۔(معجم و سیط، 2/1007)حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔ مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے،عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاد، شیخ، نبی،اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔(مراة المناجیح،6/492، 483، ملتقطاً)

لفظ وعدہ ضروری نہیں:وعدہ کے لئے لفظ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی بات کی تاکید ظاہر کی مثلاً وعدے کے طور پر طے کیا کہ فلاں کام کروں گی یا فلاں کام نہیں کروں گی وعدہ ہو جائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں، ص461، ملخصاً)

ایک دوسرے کی مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے، اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے۔مستحکم تعلقات، لین دین میں آسانی، معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا کا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے۔اسی لئے اسلام نے ایفائے عہد پر بہت زور دیا ہے۔قرآن و حدیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو۔

حالتِ جنگ میں بھی وعدہ پورا کیا:حضور اکرمﷺ نے حالتِ جنگ میں بھی عہد پورا فرمایا۔ چنانچہ غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی انفرادی قوت کم اور کفار کا لشکر تین گنا سے بھی زائد تھا۔حضرت حذیفہ اور حضرت سہیل رضی اللہ عنہما دونوں صحابی کہیں سے آرہے تھے کہ راستے میں کفار نے دَھر لیا اور کہا: تم محمدِ عربیﷺ کے پاس جا رہے ہو؟ جب ان دونوں حضرات نے شریکِ جنگ نہ ہونے کا عہد کیا تب کفار نے ان کو چھوڑا، آقاﷺ نے سارا ماجرا سن کر دونوں کو الگ کر دیا اور فرمایا: ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے۔ہمیں صرف اللہ پاک کی مدد درکار ہے۔(مسلم، ص 763، حدیث:4639)

ہمارے پیارے آقا ﷺ نے جنگ کی حالت میں بھی وعدہ پورا فرمایا لیکن آج مسلمانوں کی ایک تعداد ہے جو وعدہ کر لیتی ہے لیکن اسے پورا نہیں کرتی اور بدقسمتی سے یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔اگر کوئی کام کرنے کا کہتی ہے تو یوں کہہ دیا جاتا ہے کہ پورا کروں گی لیکن جب وقت آتا ہے تو وہ کام نہیں کیا جاتا۔ایفائے عہد انسان کی عزت و وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و قرار سے روگردانی اور عہد کی خلاف ورزی انسان کو دوسروں کی نظروں میں گِرا دیتی ہے۔یوں اُخروی نقصان کے ساتھ ساتھ دنیاوی نقصان بھی ہوتا ہے۔جو وعدے کی خلاف ورزی کرتی ہیں وہ یہ فرامینِ مصطفٰے پڑھیں اور خود کو وعدے کی خلاف ورزی سے بچائیں۔

1-نبیِّ پاک ﷺ کا ارشاد ہے:اس شخص کا کچھ دِین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث:10553)

2-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3-حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ذمہ دار ہوتا ہوں:1)جب بات کرو سچ بولو۔2)جب وعدہ کرو اسے پورا کرو۔3)جب تمہارے پاس امانت رکھوائی جائے اسے ادا کرو۔4)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔5)اپنی نگاہیں نیچی رکھو۔ 6) اپنے ہاتھوں کو روکو۔( مسند امام احمد،8/412،حدیث: 22821) یعنی ہاتھ سے کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ۔

4-حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (بخاری،4 / 149، حدیث: 6177)

5-حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔(بخاری،4/ 394،حدیث: 6966)