وعدہ خلافی ایک بُر ا فعل ہے جس کو کرنے سے انسان گناہگار ہو جاتا ہے۔وعدہ کر کے پورا کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے بارے میں سوال ہونا ہے۔وعدہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ بات جیسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کرلے وعدہ کہلاتا ہے۔اگر کوئی شخص دوسرے کو کہے کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہ کام ضرور کروں گا اور اس نے یہ کام نہ کیا تو وہ سخت گناہگار ہوگا۔ اس لیے جو وعدہ کیا جائے اسے پورا بھی کیا جائے۔ اس کے بارے میں قیامت کے روز سوال ہونا ہے۔الله پاک کا فرمانِ عالی شان ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ وعدہ خلافی کے بارے میں نبیِ کریم ﷺ کے پانچ فرامین ملاحظہ ہوں:

1-نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:عہد توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گھاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔( بخاری،حدیث: 6178)

2-نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں:1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔2 )جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔3 )جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3-نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:تم اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے ایسا مذاق کرو جو جھگڑے کا سبب بنے اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کرسکو۔ (ترمذی،حدیث: 1995)

4- نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔(مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث: 1047)

5-نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:اس شخص کا دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر،10/227، حدیث: 10553)جیسا کہ ہمیں نبیِ کریم ﷺ کے فرامین سے پتہ چلا کہ وعدہ خلافی کرنے والے کا نام قیامت کے دن کس طرح پکارا جائے گا اور جو وعدہ خلافی کرتا ہے اسے نبیِ کریم ﷺ نے منافق کی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ وعدہ ایسا کریں جو پورا کر سکیں۔اگر آپ کو معلوم ہے کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتیں تو وعدہ بھی نہ کیا جائے،اس سے بچنا بہتر ہے۔اللہ پاک نے بھی قرآنِ پاک میں فرمایا ہے کہ وعدے کے بارے میں سوال ہونا ہے۔ تو اس لیے وعدہ کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ کیا یہ کام میں کر سکوں گی ؟ تب ہی وعدہ کیا جائے۔ اللہ پاک ہمیں ہر گناہ سے بچنے اور ایمان پر قائم رہنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ بھی ایمان پر ہو۔آمین