ہمارے معاشرے میں جوبُرائیاں پائی جاتی ہیں،ان میں سے ایک بڑی بُرائی وعدہ خلافی یا کسی سے کیے ہوئے معاہدے کو جانتے بوجھتے ہوئے پورا نہ کرنا ہے۔ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے۔اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ15،بنی اسرائیل: 34)ترجمہ: اور عہد پورا کروبےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔

وعدہ کی تعریف:لغت میں اچھی چیز کی امید دلانے یا بُری چیز سے ڈرانے کو عہد کہا جاتا ہے۔اصطلاح میں کسی چیز کی اُمید دلانے کو عہد(وعدہ) کہتے ہیں۔

وعدہ خلافی کی تعریف:معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا وعدہ خلافی کہلاتا ہے۔

وعدہ خلافی کی تین صورتیں ہیں:

1)وعدہ کرتے وقت ہی دل میں یہ ہو کہ میں نے وعدہ پورا نہیں کرنا۔یہ صورت ناجائزوگناہ ہے۔ جبکہ بلا اجازتِ شرعی ہو۔حقیقت میں یہی وعدہ خلافی ہے۔2)دوسری صورت یہ ہے کہ وعدہ کرتے وقت دل میں پکا ارادہ ہے کہ میں یہ وعدہ پورا کروں گی۔ پھرکسی ایسے عذرکی وجہ سے وعدہ پورا نہ کرسکی کہ وہ عذر وعدہ پورا کرنے سے زیادہ ترجیح رکھتا ہے تو اب کوئی گناہ نہیں ہے۔بلکہ کوئی کراہت بھی نہیں ہے۔3)تیسری صورت یہ ہے کہ بغیرکسی عذرکے ہی وعدہ پورا نہ کیا تو یہ صورت بھی اگرچہ گناہ نہیں ہے، مگرمکروہِ تنزیہی ہے۔

وعدہ خلافی کی مذمت پر 5 فرامین مصطفٰے:

1-آپﷺ نے فرمایا:منافق کی علامتیں تین ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے۔جب وعدہ کرے اس کا خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2-حدیثِ پاک میں ہے:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو اپنے عہد کا پابند نہ ہو اس کا دین میں کوئی حصہ نہیں۔جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جو عہد کو پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔وعدہ کی پاسداری ایمان کے کمال کی نشانی ہے اور وعدہ خلافی کی عادت منافقوں کا شیوہ ہے۔( مشکوۃ المصابیح،ص 15)

3-حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے، اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

4-رسول اللہﷺ نے فرمایا: عہد توڑنے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔ ( بخاری،حدیث:6178)

5- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا:ایک وہ جو میرے نام پر وعدہ دے،پھر عہد شکنی کرے۔دوسرا وہ جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے۔تیسرا وہ جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52،حديث: 2227)

درس:انسان کے کردار کی پختگی اس کی زبان سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جہاں تک وعدہ پورا کرنے کا معاملہ ہے یقین جانیں کہ جس وقت آپ یہ عہد کرلیں گی کہ اب کسی سے جھوٹا وعدہ نہیں کریں گی یا کسی سے کیا ہوا وعدہ نہیں توڑیں گی تو آپ کے معاملات درست ہوتے جائیں گے۔ آپ کے ارادہ کا اخلاص آپ کو وہ کچھ عطا کرے گا جسے دنیا کا اعتماد اور اطمینانِ قلب کہا جاتا ہے۔اللہ ہم سب کو اپنے وعدوں پر قائم رہنے اور اسے تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین