کسی سےوعدہ کرکے اس کا خلاف کر نا شرعاً بہت بُرا اور بلاوجہِ شرعی ہو تو اسے نفاق ِ عملی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔لیکن وعدہ پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت تھی، اس وجہ سے پورا نہیں کیا تو اس کو وعدہ خلافی نہیں کہا جائے گا اور وعدہ خلافی کا جو وبال و گناہ ہے وہ اس صورت میں اس پر نہ آئے گا۔ اگرچہ وعدہ کرتے وقت اس نے استثناء (ان شاء اللہ یا کوئی اور کلمہ وغیرہ کہنا ) نہ کہا ہو کیونکہ یہاں شریعت کی طرف سے استثناء موجود ہے اس کو زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں مثلاً تم نے اپنی کسی دوست سے وعدہ کیا تھا کہ میں فلاں جگہ مثلاً اپنےماں باپ یا بھائی کے گھر ملوں گی، وہاں تمہارا انتظار کروں گی، مگر جب آ ئی تو دیکھا کہ ناچ رنگ کی محفل جمی ہوئی ہے، یا گھر والے ایسے کاموں میں مصروف ہیں جو شرعاً جائز نہیں اس لیے تم وہاں سے چلی گئی تو یہ وعدہ خلافی نہیں اور نہ کوئی تم پر وعدہ خلافی کا الزام دے سکتا ہے کہ شریعت ایسے مقامات سے دور بھاگنے کا حکم دیتی ہے نہ کہ وہاں شرکت کرنے اور ایسی محفلوں کی رونق بڑھانے کا۔( سنی بہشتی زیور، ص 555)

پارہ 16 سُورَۂ مَریم کی آیت نمبر 55،54میں ارشادِباری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمہ:اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھااور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رَبّ کو پسند تھا۔

فرمانِ مصطفٰےﷺ:منافق کی تین نشانیاں ہیں:(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (2)جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

وعدہ خلافی کے متعلق احکام:وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور حرام کام ہے۔ اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے۔ جب وعدے کو کسی چیز کے حاصل ہونے یا حاصل نہ ہونے کے ساتھ معلق کیا گیا ہو تو جب وہ شرط پائی جائے گی وعدہ پورا کرنا لازم ہوگا مثلاً کسی سے کہا کہ یہ چیز فلاں شخص کوبیچ دو۔ اگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو میں ادا کر دوں گا۔ پھر خریدنے کی جگہ خریدار نے قیمت ادا نہیں کی تو اب اس پر قیمت ادا کرنا لازم ہے۔ ( ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34 )

وعدہ خلافی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب:

1-مال کی محبت: بعض اوقات کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے رقم دینے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے اور دل میں نہ دینے کا ارادہ ہوتا ہے۔

2-خود غرضی:جیسے کسی سے اپنا مطلب نکالنے کے لئے کہہ دیا کہ پہلے تم میرا یہ کام کر دو پھر میں تمہارا کام کر دوں گا اور دل میں ہے کہ میں بعد میں اس کے ہاتھ ہی نہیں آؤں گا۔

3-سستی اور آرام طلبی: ایسا شخص کبھی کسی سے پیچھا چھڑانے کے لئے محض زبان سے وعدہ کر تو لیتا ہے لیکن دل میں ہوتا ہے کہ وعدہ پورا نہیں کروں گا۔

وعدہ خلافی کے گناہ سے محفوظ رہنے کے لئے:آخرت کو کثرت سے یاد کیجئے تاکہ دنیا اور اس کے سازو سامان کی محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے۔وعدے کومعمولی مت جانیے۔ اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھئے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے اور لوگ بھی وعدہ نبھانے والےکو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی بات پر اعتماد کرتے ہیں۔نیک لوگوں کی صحبت کو اختیار کیجئے جن کے پاس بیٹھنے سے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔

حاصل کلام:وعدے کے مختلف احکام ہیں۔ کبھی حرام ہے،کبھی مستحب ہے،جھوٹ بھی ہوسکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اگر وعدہ کیا جائے تو پورا کرنا چاہیے۔کیونکہ وعدہ پورا نہ کرنے کو حدیثِ پاک میں منافق کی نشانیوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔قرآنِ پاک میں بھی تاکید کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وعدہ خلافی سے بچنا چاہیے۔ جو لوگ وعدہ پورا نہیں کرتے وہ اپنا اعتماد بھی کھو دیتے ہیں۔ معاشرے میں بگاڑ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وعدہ کرکے اسے پورا نہ کیا جائے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات)(سنی بہشتی زیور )