اسلامی معاشرے کا ہر فرد ذمےدار فرد ہونے کی حیثیت سے
جو عہدو پیمان کسی سے کرتا ہےاس کو انجام دینا مومن کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔جبکہ
وعدہ خلافی کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔دل و زبان سے کسی کام کو پورا کرنے کا اقرار
کرناوعدہ کہلاتا ہے۔اسی طرح کسی کام کو پورا کرنے کا زبان سے تو اقرار کیا جائے،
لیکن دل میں(نیت) اس کو پورا کرنے کی نہ ہووعدہ خلافی و بدعہدی کہلاتا ہے۔
وعدہ خلافی:معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا وعدہ خلافی
کہلاتا ہے۔خواہ وہ بندے سے کیا ہوا جائز عہد توڑا جائے یا اللہ پاک سے کیے ہوئے
عہد کی خلاف ورزی کی جائے دونوں ہی انتہائی مذموم ہیں۔
عہد کی خلاف ورزی سے متعلق آیتِ مبارکہ:اللہ پاک قرآن میں ارشاد
فرماتا ہے: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ
عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ
یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶) (پ 10، الانفال: 55-56) ترجمہ کنز
الایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور
ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں
اور ڈرتے نہیں۔
آیتِ مبارکہ کی روشنی میں ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ
جو کفر کرتے ہیں وہ خدا کو ایک نہیں مانتے،اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور لوگوں سے
وعدہ کرکے اس کو پورا نہیں کرتے۔وعدہ کرکے ظاہری طور پر راضی ہو جاتے ہیں۔لیکن نیت
ہوتی ہے کہ اسے پورا نہیں کریں گے اور بعض تو لوگوں کو دھوکہ میں رکھنے کے
لیے،اپنا مطلب و کام نکلوانے یا پھر جان چھڑانے کی غرض سے وعدہ کر بیٹھتے ہیں۔ مگر
افسوس!وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلافی
کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے عہد کر کے توڑ دیتے ہیں۔
عہد کی خلاف ورزی کے متعلق کچھ احادیث:
1-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آپ ﷺ کا فرمانِ عبرت
نشان ہے:منافق کی تین نشانیاں ہیں:1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔2)جب وعدہ کرے وعدہ
خلافی کرے۔3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے خیانت کرے۔(بخاری،
1/24، حدیث: 33)
2-حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:آپ ﷺ
نے ارشاد فرمایا:جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ پاک اور فرشتوں
اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370،
حديث: 3179)
3-حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آپ ﷺ نے فرمایا:جو امانت دار
نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند
امام احمد، 4/271،حدیث:12386)
ایفائے عہد:انسانوں کے باہمی تعلقات میں ایفائے
عہد یعنی وعدہ پورا کرنے کو جو اہمیت حاصل ہے وہ محتاجِ بیاں نہیں۔ہمارے اکثر
معاملات کی بنیاد وعدوں پر ہوتی ہے۔اگر یہ پورے ہوتے رہیں تو معاملات ٹھیک رہتے
ہیں لیکن اگر ان کی خلاف ورزی ہو تو سارے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اسی بگاڑ سے
مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اسلام ایفائے عہد کی تلقین کرتا ہے۔
ایفائے عہد کے متعلق چند آیات:
1-قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ آیتِ مبارکہ کی روشنی میں یہ
بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم جو جائز عہد کرتی ہیں یا پھر اللہ پاک سے (اس کی بندگی و
اطاعت) ان دونوں صورتوں میں عہد پورا کرنے کا حکم ہے۔
2-ارشادِ باری ہے: الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا
یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَۙ(۲۰) وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ
بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ (پ13،الرعد:20-21) ترجمہ کنز الایمان:
وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور قول باندھ کر پھرتے نہیں اور وہ کہ جوڑتے ہیں
اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ آیتِ مبارکہ کی روشنی میں یہ بات معلوم
ہوتی ہے کہ اس میں باہمی معاہدوں اور اجتماعی رشتوں کی پاسداری رکھنے کی ہدایت
فرمائی گئی ہے۔اگر دیکھا جائے تو آپ ﷺ کے ہر قول و فعل سے معلوم ہوتا ہے آپﷺ نے
سخت سے سخت حالات میں بھی عہد کی پابندی فرمائی ہے۔
بد عہدی کا حکم:عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی
بد عہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، 1 / 652)
عہد شکنی کی مذمت:بندوں سے کیا ہوا جائز عہد توڑا جائے یا اللہ سے کیے
ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی جائے دونوں کے بارے میں (عہد شکنی) کی شدید مذمت بیان کی
گئی ہے۔
عہد شکنی کی مذمت پر حدیث:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہﷺ نے
ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے:میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا:
ایک وہ جو میرے نام پر وعدہ دے،پھر عہد شکنی کرے۔ دوسرا وہ جو آزاد کو بیچے پھر اس
کی قیمت کھائے۔تیسرا وہ جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52،حديث:
2227)
عہد شکنی پر وعید:حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے
دن ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائےگا۔(بخاری،4/394، حديث:
6966)
نوٹ:جاننا چاہیے کہ بغیر کچھ جانے کسی کو بھی ہم جھوٹی یا
وعدہ خلافی کرنے والی یا دھوکے باز جیسے الفاظ نہیں کہہ سکتیں یا اس کے بارے میں
ایسا نہیں سوچ سکتیں۔مثال کے طور پر آپ سے کسی نے ملنے کا وعدہ کیا اس کی نیت اور
ارادہ ملنے کا تھا لیکن اگر وہ کسی آزمائش مثلاً ملنے کے وقت سے کچھ وقت پہلے آنکھ
لگ جانے یا سواری نہ ملنے کی صورت میں نہ آسکی اس صورت میں اسے وعدہ خلاف نہیں
کہیں گی۔
حاصل کلام:ہمارے لین دین کے معاملات چاہے وہ دینی اعتبار سے ہوں یا
دنیاوی اعتبار سے باہمی حقوق ایفائے عہد ہی کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے دینداری کا
تقاضا یہ ہے کہ ہم ان سب کی پاسداری کریں۔ اللہ پاک ہمیں عہد کی پاسداری کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین