آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں وعدہ خلافی عام ہو چکی ہے یہ بات ہم میں سے بہت سے لوگوں کا معمول بن چکی ہے کہ کسی کو ٹالنا ہو تو ہم فورا وعدہ کر لیتے ہیں تاکہ اس شخص سے جا ن چھوٹ جائے، اگر ایسا ہے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے اور وہ وعدہ خلافی ہمارے لیے وبالِ جان بن سکتی ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ وعدہ پورا نہ کر سکنے سے ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آج ہم جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہاں جھوٹ، کینہ، بغض، حسد، جلن، منافقت اور وعدہ خلافی وغیرہ عام باتیں ہو گئی ہیں، دنیا میں ایک دوسرے کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل ہے ہمارے ہر ایک سے معاملات پیش آتے رہتے ہیں ان معاملات میں ایک دوسرے کو استقامت دینے اور دل مضبوط کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لیے ہمیں قدم قدم پر ایک دوسرے کی مدد اور یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اور یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے۔اس لیے قرآن و حدیث میں بھی وعدہ پورا کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے، قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو وعدہ پورا کرتے ہیں، فرمایا: بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۷۶) (پ 3، اٰل عمران: 76) ترجمہ: کیوں نہیں جو شخص اپنا وعدہ پورا کرے اور پرہیزگاری کرے تو اللہ پاک بھی ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔

وعدہ خلافی کی تعریف: معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا وعدہ خلافی کہلاتا ہے۔ (باطنی گناہوں کی معلومات)

آیت مبارکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔وعدہ کی پاسداری ایمان کے کمال کی نشانی اور وعدہ خلافی منافقوں کا شیوہ ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، ص 15)

مذمت میں احادیث:

1۔ جو کسی سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 4/505، حدیث: 7300)

2۔ جب اولین و آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

وعدہ خلافی کے متعلق احکام: پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور حرام کام ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34) اپنے عہد کو پورا کرنا مستحب ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا خطبہ کم دیا ہوگا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ جس آدمی میں امانت نہیں اس کا ایمان بھی کچھ نہیں اور جس میں ایفائے عہد نہیں اس کا دین بھی کچھ نہیں۔ (شعب الایمان)

پیارے مصطفیٰ ﷺ جب کسی سے وعدہ فرماتے تو لفظ عسیٰ (یعنی امید ہے) فرماتے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب بھی وعدہ کرتے تو ان شاء اللہ فرماتے اور یہی کہنا زیادہ مناسب ہے۔ (احیاء العلوم، 3/404) معلوم ہوا کہ جب کسی سے وعدہ کیا جائے تو اسے ضرور پورا کیا جائے خواہ رب سے کیا ہو یا عام انسانوں سے یا اپنے پیر سے یا بوقت نکاح بیوی سے یا کسی اور عزیز سے۔

اللہ پاک ہمیں ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام ظاہری اور باطنی گناہوں سے محفوظ فرمائے۔آمین

معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا بد عہدی کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات)

بد عہدی کے احکام: پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور حرام کام ہے، اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)

وعدہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں اچھی چیز کی امید دلانے یا بری چیز سے ڈرانے ان دونوں کو وعدہ کہا جاتا ہے اصطلاح میں کسی چیز کی امید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ آیت میں عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے خواہ وہ اللہ کا ہو یا بندوں کا اللہ سے عہد اس کی بندگی اور اطاعت کرنے کا ہے اور بندوں سے عہد میں ہر جائز عہد داخل ہے افسوس کہ وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ (صراط الجنان)

احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے:

1۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وعدہ قرض کی مثل ہے بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)

2۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کو امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرتا ہے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3۔قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (بخاری، 4/149، حدیث: 4177)

4۔ قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔

5۔ جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول نہ ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

وعدہ خلافی کے اسباب: اس طرح ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ بدترین گناہ ہماری عام عادت میں تو نہیں وعدہ خلافی زیادہ تر کسی نہ کسی دنیوی غرض سے کی جاتی ہے، مثلا مال کی محبت، خود غرضی جیسے کسی سے اپنا مطلب نکالنے کے لیے کہہ دیا کہ پہلے تم میرا یہ کام کر دو پھر میں تمہارا کام کروں گا اور بعد میں اس سے مکر جانا، سستی اور آرام طلبی ایسا شخص کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے محض زبان سے وعدہ کر تو لیتا ہے مگر پورا نہیں کرتا۔

بد عہدی کا علاج: بد عہدی سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس کی دنیاوی اور اخروی تباہ کاریوں پر غور کیا جائے اور یہ سوچیں کہ بد عہد شخص سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اگر ان تباہ کاریوں کو مدنظر رکھا جائے تو اس گناہ سے بچنے کا ذہن بنے گا۔

اللہ پاک ہم سب کو بد عہدی کے گناہ سے بچنے اور وعدے کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 351 پر ہے: جو شخص کسی سے ایک امر کا وعدہ کرے اور اس وقت اس کی نیت میں فریب نہ ہو بعد کو اس میں کوئی حرج ظاہر ہو اور اس وجہ سے اس امر کو ترک کرے تو اس پر بھی خلاف وعدہ کا الزام نہیں حضور سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ بد عہدی نہیں کہ آدمی کسی شخص سے وعدہ کرے اور نیت اسے پورا کرنے کی ہو اور پورا نہ کر سکے بلکہ بد عہدی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اسے پورا کرنے کا سرے سے ارادہ ہی نہ ہو۔ (فیضان ریاض الصالحین، 6/21) جب اللہ اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا تو ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے عہد کی 3 قسمیں بیان فرمائی ہیں: بندہ کا اللہ سے عہد، بندہ کا اپنے نفس کے ساتھ عہد، ایک انسان کا کسی دوسرے انسان سے۔ عہد کی ان تینوں قسموں کا پورا کرنا واجب ہے ماسوائے اس عہد کے کہ کوئی شخص معصیت کا عہد کرے۔ مندرجہ بالا اقسام میں سے قسم نمبر 2 کی حفاظت کا ذہن عطا فرماتے ہوئے پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم لوگ اپنے نفس کی طرف سے میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں: جب بات کرو تو سچ بولو، جب وعدہ کرو تو پورا کرو، جب امین بنائے جاؤ تو امانت ادا کرو، اپنی پارسائی کی حفاظت کرو، اپنی نگاہیں نیچی رکھو، اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 6)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ وعدہ پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، استاذ، شیخ نبی اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدے پورے کرو، البتہ اگر کسی حرام کام کا وعدہ کیا ہو تو اسے ہرگز پورا نہ کرے کہ حرام کام کی نذر پوری کرنا بھی حرام ہے۔

لغت میں اچھی چیز کی امید دلانے کو یا بری چیز سے ڈرانے دونوں کو وعدہ کہا جاتا ہے جبکہ اصطلاح میں کسی چیز کی امید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں اور بری چیز سے ڈرانے کو وعید کہتے ہیں جیسے کہا میں تمہیں کچھ دوں گا یہ وعدہ ہے اور میں تم کو سزا دوں گا یہ وعید ہے، خلاف وعدہ کرنا جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے اور بہت بری چیز ہے اور اگر وہ وعدہ شریعت سے نہ ٹکراتا ہو تو اس وعدہ کی پاسداری بھی ضروری ہے۔

افسوس کہ آج کے اس دور میں وعدہ خلافی کو بہت ہلکا سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ یہ کبیرہ گناہ اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے اور وعدہ خلافی کرنے والا اپنا اعتبار کھو بیٹھتا ہے اور وہ دنیا میں بے اعتبار سمجھا جانے لگتا ہے۔ قرآن پاک میں بھی اللہ پاک نے عہد کو پورا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ فرمانِ خداوندی ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

احادیث طیبہ میں بھی وعدہ خلافی کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے آئیے احادیث مبارکہ پڑھ کر اپنے آپ کو عہد شکنی کی وعید سے ڈراتے ہیں:

1۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

مذکورہ حدیث میں جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں ہر مسلمان کو ان سے بچنا چاہیے کامل مسلمان نہ تو جھوٹ بولتا ہے نہ وعدہ خلافی کرتا ہے اور نہ ہی کسی کے مال میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں بھی وعدہ کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین

کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو شرعا اور عرفا دونوں لحاظ سے ہی برا سمجھا جاتا ہے ان کاموں میں سے ہی ایک وعدہ خلافی بھی ہے کہ عرفاً تو اس کو برا جانا ہی جاتا ہے لوگ وعدہ خلافی کرنے والے شخص کو ناپسند کرتے ہیں مگر شرعا بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے اس پر مشتمل چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

1۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2۔ چار خصلتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی خصلت ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے، جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب لڑائی کرے تو بد زبانی کا مظاہرہ کرے۔ (بخاری، 1/25، حدیث: 34)

3۔ جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

4۔ قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (صراط الجنان، 5/127)

5۔ شب معراج میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ آپ کی امت کے وہ وعظ کرنے والے ہیں جو وہ باتیں کہتے تھے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے۔ (صراط الجنان، 10/35)

6۔ قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔ (صراط الجنان، 5/127)

وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا حرام کام ہے، اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے جب وعدے کو کسی چیز کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ معلق کیا گیا ہو تو جب وہ شرط پائی جائے گی وعدہ پورا کرنا لازم ہوگا، مثلا کسی سے کہا کہ یہ چیز فلاں شخص کو بیچ دو اگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو میں ادا کروں گا پھر خریدار نے قیمت ادا نہیں کی تو اب اس پر قیمت ادا کرنا لازم ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)

وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ خلافی ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات)

احادیث طیبہ:

1۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2۔ جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

3۔ چار باتیں جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے، جب کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔ (مدنی گلدستہ)

4۔ ہر عہد شکنی کرنے والے کی سرین (یعنی بدن کا وہ حصہ جس کے بل انسان بیٹھتا ہے اس) کے پاس قیامت کے دن اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہوگا۔ (مسلم، ص 956، حدیث: 1738)

5۔ لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ لوگوں سے عہد شکنی نہ کرے۔ (ابو داود، 4/166، حدیث: 4347)

وعدہ خلافی میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: مال کی محبت کہ بعض اوقات کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے رقم دینے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے اور دل میں نہ دینے کا ارادہ ہوتا ہے، خود غرضی جیسے کسی سے اپنا مطلب نکالنے کے لیے کہہ دیا کہ پہلے تم میرا یہ کام کر دو پھر میں تمہارا کام کروں گا اور دل میں ہے کہ میں بعد میں اس کے ہاتھ ہی نہیں آؤں گا، سست اور آرام طلبی کہ ایسا شخص کبھی کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے زبان سے وعدہ کر لیتا ہے لیکن دل میں ہوتا ہے کہ وعدہ پورا نہیں کروں گا۔(ظاہری گناہوں کی معلومات)

وعدہ خلافی سے محفوظ رہنے کے لیے: آخرت کو کثرت سے یاد کیجیے تاکہ دنیا اور اس کے ساز و سامان کی محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے، وعدے کو معمولی مت جانیے اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھیے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے اور لوگ بھی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی بات پر اعتماد کرتے ہیں۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے جن کے پاس بیٹھنے سے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔(ظاہری گناہوں کی معلومات)

وعدہ خلافی کے بہت سے نقصانات ہیں، بد عہد شخص لوگوں میں اپنا اعتماد کھو دیتا ہے وعدہ خلافی باہمی تعلقات کو کمزور کرتی ہے، اخوت و محبت اور ایثار و ہمدردی کے جذبات کو مجروح کرتی ہے اس کے سبب باہمی تعلقات میں بے اطمینانی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے بد عہدی منافقت کی علامت ہے وعدہ خلافی کرنے والا شخص دنیا میں تو ذلیل و رسوا ہوتا ہے آخرت میں بھی رسوائی اس کا مقدر ہوگی۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب اولین و آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

2۔ جو کسی مسلمان سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 4/505، حدیث: 7300) مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: جو مسلمان دوسرے مسلمان کے ذمہ یا اس کی دی ہوئی امان توڑے یا اس کے کئے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے اس پر لعنت ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 4/409)

اپنے بچوں کو وعدہ خلافی سے بچنے کی تربیت دیجیے وعدہ خلافی آج ہمارے ہاں کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی، بدعہدی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا حرام ہے، اکثر علما کے نزدیک پورا کرنے کی نیت سے وعدہ کیا تو اس کا پورا کرنا مستحب ہے اور توڑنامکروہ تنزیہی ہے۔ (حدیقہ ندیہ، 1/656) اگر کسی سے کوئی کام کرنے کا وعدہ کیا اور وعدہ کرتے وقت نیت میں فریب نہ ہو پھر بعد میں اس کام کو کرنے میں حرج پایا جائے تو اس وجہ سے اس کام کو نہ کرنا وعدہ خلافی نہیں کہلائے گا، حضور ﷺ فرماتے ہیں: وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی بھی ہو بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو۔ (فتاویٰ رضویہ، 10/89)

3۔ لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود، 4/166، حدیث: 4347)

4۔ چار باتیں جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے، جب کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3178)

حسد، وعدہ خلافی، جھوٹ، چغلی اور غیبت مجھے ان سب گناہوں سے ہو نفرت یا رسول اللہ


انسان کی معاشرتی زندگی کا اصول یہ ہے کہ اس کے بہت سے کام معاشرے کے دوسرے افراد سے متعلق ہوتے ہیں ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں ترقی کرنے کے لیے ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنا بہت ضروری ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے قول، وعدے کے پابند ہوں اور وعدہ خلافی جیسی بری صفت میں مبتلا نہ ہوں، قرآن مجید میں بھی اللہ پاک ہمیں وعدہ کی پابندی کرنے اور وعدہ خلافی سے بچنے کا حکم دیتا ہے، چنانچہ سورۃ المائدۃ پارہ 6 آیت نمبر 1 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

وعدہ خلافی کیا ہے؟ حدیث پاک میں ہے وعدہ خلافی یہ نہیں کہ ایک شخص وعدہ کرے اور اسے پورا نہ کر سکے بلکہ وعدہ خلافی تو یہ ہے کہ وعدہ تو کرے مگر پورا کرنے کی نیت نہ ہو پھر پورا نہ کرے۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ، ص 868، حدیث: 1881)

وعدہ خلافی اور نیت: حدیث پاک سے معلوم ہوا ہر وعدے میں نیت کا بڑا دخل ہے اگر وعدہ پورا کرنے کی نیت تھی مگر کسی وجہ سے پورا نہیں کر سکے تو یہ وعدہ خلافی نہیں اور وعدہ پورا کرنے کی نیت نہیں تھی مگر اتفاقا پورا ہو گیا تو بھی گنہگار ہوگا اس بری نیت کی وجہ سے۔

وعدہ پورا کرنے میں شرعی قباحت ہو تو؟ یاد رہے وعدہ پورا کرنے میں شرعی قباحت آتی ہو تو اس وعدے کو پورا نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں: وعدہ کیا مگر اس کو پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت تھی اس وجہ سے پورا نہیں کیا تو اس کو وعدہ خلافی نہیں کہا جائے گا اور وعدہ خلافی کا جو گناہ ہے وہ اس صورت میں نہیں ہوگا۔ (بہار شریعت، 3/656) اپنے وعدے کو پورا کرنا مستحب ہے اور وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، احادیث مبارکہ میں بھی وعدہ خلافی کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، اسی ضمن میں پانچ احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

1۔ لوگوں کی ہلاکت: لوگ اس وقت ہلاک تک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود، 4/144، حدیث: 4347)

2۔ اللہ کی لعنت: جو کسی مسلمان سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 4/505، حدیث: 7300)

3۔ دشمنوں کا تسلط: جو قوم بد عہدی (یعنی وعدہ خلافی) کرتی ہے اللہ پاک ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیتا ہے۔ (قرۃ العیون، ص 392)

4۔ قیامت میں رسوائی: جب اولین و آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

5۔ وعدہ خلاف کا کوئی دین نہیں: جس شخص میں وعدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ (شعب الایمان، حدیث: 4354)

پیاری اسلامی بہنو! افسوس کہ وعدہ پورا کرنے میں ہمارا حال اچھا نہیں بلکہ یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے، بات بات پر ہم مخاطب کو کہتی ہیں پکا 5 منٹ میں آجاؤں گی، کل لازمی کر دوں گی وغیرہ لیکن ہم وقت پر اور اگلے سے طے شدہ وقت میں وہ کام مکمل نہیں کرتی اور اپنے قول کے منافی رہتی ہیں۔ آپ نے وعدہ خلافی کی مذمت پر احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں، وعدہ خلافی کرنے والا دنیا و آخرت میں رسوا ہوتا ہے دنیا میں کوئی اس کا اعتماد نہیں کرتا، وعدہ خلافی باہمی تعلقات میں خرابی پیدا کرتی ہے، قیامت میں رسوائی کا سبب ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر وعدہ خلاف شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اللہ پاک ہمیں وعدہ کا پابند بنائے اور وعدہ خلافی کی بری عادت سے بچائے۔ 


وعدہ خلافی یہ ہے کہ وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا، قرآن پاک کے ساتھ ساتھ متعدد احادیث مبارکہ میں بھی وعدہ کی پابندی اور وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے جن سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں احترام حقوق مسلمین و حقوق انسانیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ ایک مسلمان کے ساتھ وعدہ کرنے کی بعد اس کو پورا کرنا یہ اس کا حق ہے ورنہ اس کے ساتھ دھوکے بازی اور غداری کہلائے گی جس کی بہت مذمت ہے کہ بد عہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو کسی مسلمان کے ساتھ وعدہ خلافی کرے گا اس پر اللہ، فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت ہے نہ اس کے فرض قبول نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

2۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی کو کوئی رخصت نہیں: والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر، وعدہ پورا کرنا خواہ مسلمان سے کیا ہو یا کافر سے، امانت کی ادائیگی چاہے وہ کافر ہو یا مسلمان۔ (شعب الایمان، 4/82، حدیث: 4363)

3۔ بد عہدی کرنے والے ہر شخص کے لیے قیامت کے دن اس کی بد عہدی کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا۔ (ابن ماجہ، ص 265، حدیث: 2873)

4۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

5۔ جس نے کسی مسلمان کے ساتھ بد دیانتی کی یا اسے نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (جامع احادیث للسیوطی، 5/1849، حدیث: 1963)

خلاصہ کلام: خلاصہ کلام یہ ہے کہ وعدہ خلافی کی جو مذمت وارد ہوئی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا کرنا چاہیے وہ مسلمان سے کیا ہو یا کافر سے یہ اس کا حق ہے کہ اسے پورا کیا جائے ورنہ وعیدات کے مستحق ہوں گے کہ وعدہ پورا نہ کرنے والے کا کوئی فرض و نفل قبول نہیں اور اس پر اللہ و رسول، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور بد عہدی کو منافقت کی علامت بھی کہا گیا ہے۔

اللہ پاک ہمیں حقوقِ انسانیت کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وہ بات جسے کوئی شخص اپنے اوپر پورا کرنا لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے، کسی بھی معاشرے میں امن اور آپس میں محبت کی فضا قائم رکھنے میں وعدے کو پورا کرنا اہم ہے، اسی لیے اسلام نے وعدہ پورا کرنے پر زور دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ وعدہ پورا کرنا اسلامی خصلت ہے جب کہ وعدہ خلافی منافقت کی علامت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت: ایفائے عہد (وعدہ پورا کرنا) بندے کی عزت و وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ اس کے برعکس وعدہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے انسان دوسروں کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عہد توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔ (بخاری، حدیث: 6178)

ہمیں بحیثیت مسلمان اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے کیے ہوئے وعدے پورے کرنے چاہئیں اگر ہم کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کریں گے تو لوگ بھی اپنے وعدے پورے کریں گے اور یوں معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔ ایسا وعدہ نہ کیا جائے جسے پورا نہ کیا جا سکتا ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو مزاح نہ کرو اور نہ ہی اس سے ایسا وعدہ کرو جسے تم پورا نہ کر سکو۔ (ترمذی)

ایفاء کے معنی ہیں پورا کرنا، مکمل کرنا، عہد ایسے قول اور معاملے کو کہا جاتا ہے جو کہ طے ہو یعنی کہ ایفائے عہد وعدہ پورا کرنا اپنے قول کو نبھانا اس پر قائم رہنا ہے، وعدہ اور عہد کی پابندی کرنا ایفائے عہد میں شامل ہے اس عنوان میں ہم وعدہ خلافی کی مذمت پر احادیث مبارکہ پڑھیں گے۔

احادیث طیبہ:

1۔ تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند ابی یعلیٰ، 1/451، حدیث: 1047)

2۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے استاد شیخ نبی اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو اگر وعدے کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/483،492 ملتقطا)

3۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات کے ذریعہ بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

4۔ عہد توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔ (بخاری، 4/149، حدیث: 4177)

5۔ وعدہ بھی ایک قرض ہے لہٰذا اس کو ادا کرنا چاہیے۔ (طبرانی شریف)

اللہ پاک کی رضا پانے اور حصول جنت کے لیے ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنا بے حد ضروری ہے جس طرح کچھ گناہ باطنی ہوتے ہیں جیسے حسد، تکبر وغیرہ اسی طرح کچھ گناہ ظاہری بھی ہوتے ہیں جیسے وعدہ خلافی۔

وعدہ کی تعریف: وعدہ یک طرفہ ہوتا ہے جس میں ایک فریق دوسرے کو کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے مثلا زید بکر سے کہے کہ میں کل تمہیں اپنی گاڑی فروخت کر دوں گا بکر کی طرف سے کوئی وعدہ نہ ہو تو یہ وعدہ کہلائے گا۔ قرآن و احادیث میں وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے جیسے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

احادیث میں بھی وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے، آپ بھی پانچ احادیث ملاحظہ کیجیے:

1۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان عہد شکنی یعنی وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

2۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3۔ تم اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے ایسا مذاق کرو جو جھگڑے کا سبب بنے اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کر سکو۔ (ترمذی، حدیث: 1995)

4۔ جب اولین و آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

5۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52، حدیث: 2227)

خلاصہ کلام: وعدہ خلافی اور عہد شکنی حرام اور گناہ کا کام ہے، اپنے عہد اور وعدوں کو پورا کرنا مسلمان پر شرعا واجب و لازم ہے۔

اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو وعدہ پورا کرنے والا بنائے اور وعدہ خلافی سے بچنے والا بنائے۔ آمین


وعدہ سے مراد وہ بات ہے جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے، وعدہ پورا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، قرآن کریم میں بھی بہت سی جگہ وعدہ پورا کرنے کی تاکید اور نہ پورا کرنے کی مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ جو شخص وعدہ پورا نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں، احادیث میں بھی کئی مقامات پر وعدہ خلافی کی مذمت بیان ہوئی۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو کسی مسلمان سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 4/505، حدیث: 7300)

2۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3۔ ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔ (ترمذی، جلد 1، حدیث: 1518)

4۔ عہد توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔ (بخاری، 4/149، حدیث: 4177)

5۔ چار صفات جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک صفت ہو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے حتیٰ کہ اس عادت کو چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جب عہد و پیمان باندھے تو اسے توڑ دے اور جب کوئی جھگڑا وغیرہ ہو تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔ (ابو داود، جلد 3، حدیث: 4088)

خلاصہ: وعدہ پورا کرنا دین کا اہم حصہ ہے، وعدہ پورا نہ کرنا انسان کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے، وہ رب تعالیٰ اور فرشتوں کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے، وعدہ پورا کرنے کا تعلق حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں سے ہے اور عہد شکنی نفاق کی بدترین قسم انسان کو چاہیے خود کو ایسی بری عادت سے بچائے وعدہ کو بروقت پورا کر لے۔