وعدہ سے مراد وہ بات ہے جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے، وعدہ پورا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، قرآن کریم میں بھی بہت سی جگہ وعدہ پورا کرنے کی تاکید اور نہ پورا کرنے کی مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ جو شخص وعدہ پورا نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں، احادیث میں بھی کئی مقامات پر وعدہ خلافی کی مذمت بیان ہوئی۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو کسی مسلمان سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 4/505، حدیث: 7300)

2۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3۔ ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔ (ترمذی، جلد 1، حدیث: 1518)

4۔ عہد توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔ (بخاری، 4/149، حدیث: 4177)

5۔ چار صفات جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک صفت ہو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے حتیٰ کہ اس عادت کو چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جب عہد و پیمان باندھے تو اسے توڑ دے اور جب کوئی جھگڑا وغیرہ ہو تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔ (ابو داود، جلد 3، حدیث: 4088)

خلاصہ: وعدہ پورا کرنا دین کا اہم حصہ ہے، وعدہ پورا نہ کرنا انسان کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے، وہ رب تعالیٰ اور فرشتوں کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے، وعدہ پورا کرنے کا تعلق حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں سے ہے اور عہد شکنی نفاق کی بدترین قسم انسان کو چاہیے خود کو ایسی بری عادت سے بچائے وعدہ کو بروقت پورا کر لے۔