انسان کی معاشرتی زندگی کا اصول یہ ہے کہ اس کے بہت سے کام معاشرے کے دوسرے افراد سے متعلق ہوتے ہیں ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں ترقی کرنے کے لیے ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنا بہت ضروری ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے قول، وعدے کے پابند ہوں اور وعدہ خلافی جیسی بری صفت میں مبتلا نہ ہوں، قرآن مجید میں بھی اللہ پاک ہمیں وعدہ کی پابندی کرنے اور وعدہ خلافی سے بچنے کا حکم دیتا ہے، چنانچہ سورۃ المائدۃ پارہ 6 آیت نمبر 1 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

وعدہ خلافی کیا ہے؟ حدیث پاک میں ہے وعدہ خلافی یہ نہیں کہ ایک شخص وعدہ کرے اور اسے پورا نہ کر سکے بلکہ وعدہ خلافی تو یہ ہے کہ وعدہ تو کرے مگر پورا کرنے کی نیت نہ ہو پھر پورا نہ کرے۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ، ص 868، حدیث: 1881)

وعدہ خلافی اور نیت: حدیث پاک سے معلوم ہوا ہر وعدے میں نیت کا بڑا دخل ہے اگر وعدہ پورا کرنے کی نیت تھی مگر کسی وجہ سے پورا نہیں کر سکے تو یہ وعدہ خلافی نہیں اور وعدہ پورا کرنے کی نیت نہیں تھی مگر اتفاقا پورا ہو گیا تو بھی گنہگار ہوگا اس بری نیت کی وجہ سے۔

وعدہ پورا کرنے میں شرعی قباحت ہو تو؟ یاد رہے وعدہ پورا کرنے میں شرعی قباحت آتی ہو تو اس وعدے کو پورا نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں: وعدہ کیا مگر اس کو پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت تھی اس وجہ سے پورا نہیں کیا تو اس کو وعدہ خلافی نہیں کہا جائے گا اور وعدہ خلافی کا جو گناہ ہے وہ اس صورت میں نہیں ہوگا۔ (بہار شریعت، 3/656) اپنے وعدے کو پورا کرنا مستحب ہے اور وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، احادیث مبارکہ میں بھی وعدہ خلافی کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، اسی ضمن میں پانچ احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

1۔ لوگوں کی ہلاکت: لوگ اس وقت ہلاک تک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود، 4/144، حدیث: 4347)

2۔ اللہ کی لعنت: جو کسی مسلمان سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 4/505، حدیث: 7300)

3۔ دشمنوں کا تسلط: جو قوم بد عہدی (یعنی وعدہ خلافی) کرتی ہے اللہ پاک ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیتا ہے۔ (قرۃ العیون، ص 392)

4۔ قیامت میں رسوائی: جب اولین و آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

5۔ وعدہ خلاف کا کوئی دین نہیں: جس شخص میں وعدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ (شعب الایمان، حدیث: 4354)

پیاری اسلامی بہنو! افسوس کہ وعدہ پورا کرنے میں ہمارا حال اچھا نہیں بلکہ یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے، بات بات پر ہم مخاطب کو کہتی ہیں پکا 5 منٹ میں آجاؤں گی، کل لازمی کر دوں گی وغیرہ لیکن ہم وقت پر اور اگلے سے طے شدہ وقت میں وہ کام مکمل نہیں کرتی اور اپنے قول کے منافی رہتی ہیں۔ آپ نے وعدہ خلافی کی مذمت پر احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں، وعدہ خلافی کرنے والا دنیا و آخرت میں رسوا ہوتا ہے دنیا میں کوئی اس کا اعتماد نہیں کرتا، وعدہ خلافی باہمی تعلقات میں خرابی پیدا کرتی ہے، قیامت میں رسوائی کا سبب ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر وعدہ خلاف شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اللہ پاک ہمیں وعدہ کا پابند بنائے اور وعدہ خلافی کی بری عادت سے بچائے۔