وعدہ
خلافی کی مذمت از بنت عابد حسین، فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
وعدہ خلافی
یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا حرام کام ہے، اس
نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا
کرنا مستحب ہے جب وعدے کو کسی چیز کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ معلق کیا گیا
ہو تو جب وہ شرط پائی جائے گی وعدہ پورا کرنا لازم ہوگا، مثلا کسی سے کہا کہ یہ
چیز فلاں شخص کو بیچ دو اگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو میں ادا کروں گا پھر خریدار
نے قیمت ادا نہیں کی تو اب اس پر قیمت ادا کرنا لازم ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)
وعدہ کرتے وقت
ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ خلافی ہے۔ (ظاہری
گناہوں کی معلومات)
احادیث
طیبہ:
1۔ منافق کی
تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے اور جب اس کے
پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
2۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
3۔ چار باتیں
جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے وعدہ
خلافی کرے، جب کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔ (مدنی
گلدستہ)
4۔ ہر عہد
شکنی کرنے والے کی سرین (یعنی بدن کا وہ حصہ جس کے بل انسان بیٹھتا ہے اس) کے پاس
قیامت کے دن اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہوگا۔ (مسلم، ص 956، حدیث: 1738)
5۔ لوگ اس وقت
تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ لوگوں سے عہد شکنی نہ کرے۔ (ابو داود، 4/166، حدیث:
4347)
وعدہ
خلافی میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: مال کی محبت کہ بعض اوقات کسی سے
پیچھا چھڑانے کے لیے رقم دینے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے اور دل میں نہ دینے کا ارادہ
ہوتا ہے، خود غرضی جیسے کسی سے اپنا مطلب نکالنے کے لیے کہہ دیا کہ پہلے تم میرا
یہ کام کر دو پھر میں تمہارا کام کروں گا اور دل میں ہے کہ میں بعد میں اس کے ہاتھ
ہی نہیں آؤں گا، سست اور آرام طلبی کہ ایسا شخص کبھی کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے
زبان سے وعدہ کر لیتا ہے لیکن دل میں ہوتا ہے کہ وعدہ پورا نہیں کروں گا۔(ظاہری
گناہوں کی معلومات)