فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 351 پر ہے: جو شخص کسی سے ایک امر کا وعدہ کرے اور اس وقت اس کی نیت میں فریب نہ ہو بعد کو اس میں کوئی حرج ظاہر ہو اور اس وجہ سے اس امر کو ترک کرے تو اس پر بھی خلاف وعدہ کا الزام نہیں حضور سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ بد عہدی نہیں کہ آدمی کسی شخص سے وعدہ کرے اور نیت اسے پورا کرنے کی ہو اور پورا نہ کر سکے بلکہ بد عہدی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اسے پورا کرنے کا سرے سے ارادہ ہی نہ ہو۔ (فیضان ریاض الصالحین، 6/21) جب اللہ اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا تو ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے عہد کی 3 قسمیں بیان فرمائی ہیں: بندہ کا اللہ سے عہد، بندہ کا اپنے نفس کے ساتھ عہد، ایک انسان کا کسی دوسرے انسان سے۔ عہد کی ان تینوں قسموں کا پورا کرنا واجب ہے ماسوائے اس عہد کے کہ کوئی شخص معصیت کا عہد کرے۔ مندرجہ بالا اقسام میں سے قسم نمبر 2 کی حفاظت کا ذہن عطا فرماتے ہوئے پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم لوگ اپنے نفس کی طرف سے میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں: جب بات کرو تو سچ بولو، جب وعدہ کرو تو پورا کرو، جب امین بنائے جاؤ تو امانت ادا کرو، اپنی پارسائی کی حفاظت کرو، اپنی نگاہیں نیچی رکھو، اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 6)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ وعدہ پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، استاذ، شیخ نبی اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدے پورے کرو، البتہ اگر کسی حرام کام کا وعدہ کیا ہو تو اسے ہرگز پورا نہ کرے کہ حرام کام کی نذر پوری کرنا بھی حرام ہے۔

لغت میں اچھی چیز کی امید دلانے کو یا بری چیز سے ڈرانے دونوں کو وعدہ کہا جاتا ہے جبکہ اصطلاح میں کسی چیز کی امید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں اور بری چیز سے ڈرانے کو وعید کہتے ہیں جیسے کہا میں تمہیں کچھ دوں گا یہ وعدہ ہے اور میں تم کو سزا دوں گا یہ وعید ہے، خلاف وعدہ کرنا جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے اور بہت بری چیز ہے اور اگر وہ وعدہ شریعت سے نہ ٹکراتا ہو تو اس وعدہ کی پاسداری بھی ضروری ہے۔

افسوس کہ آج کے اس دور میں وعدہ خلافی کو بہت ہلکا سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ یہ کبیرہ گناہ اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے اور وعدہ خلافی کرنے والا اپنا اعتبار کھو بیٹھتا ہے اور وہ دنیا میں بے اعتبار سمجھا جانے لگتا ہے۔ قرآن پاک میں بھی اللہ پاک نے عہد کو پورا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ فرمانِ خداوندی ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

احادیث طیبہ میں بھی وعدہ خلافی کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے آئیے احادیث مبارکہ پڑھ کر اپنے آپ کو عہد شکنی کی وعید سے ڈراتے ہیں:

1۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

مذکورہ حدیث میں جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں ہر مسلمان کو ان سے بچنا چاہیے کامل مسلمان نہ تو جھوٹ بولتا ہے نہ وعدہ خلافی کرتا ہے اور نہ ہی کسی کے مال میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں بھی وعدہ کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین