اللہ پاک کی رضا پانے اور حصول جنت کے لیے ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنا بے حد ضروری ہے جس طرح کچھ گناہ باطنی ہوتے ہیں جیسے حسد، تکبر وغیرہ اسی طرح کچھ گناہ ظاہری بھی ہوتے ہیں جیسے وعدہ خلافی۔

وعدہ کی تعریف: وعدہ یک طرفہ ہوتا ہے جس میں ایک فریق دوسرے کو کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے مثلا زید بکر سے کہے کہ میں کل تمہیں اپنی گاڑی فروخت کر دوں گا بکر کی طرف سے کوئی وعدہ نہ ہو تو یہ وعدہ کہلائے گا۔ قرآن و احادیث میں وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے جیسے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

احادیث میں بھی وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے، آپ بھی پانچ احادیث ملاحظہ کیجیے:

1۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان عہد شکنی یعنی وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

2۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

3۔ تم اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے ایسا مذاق کرو جو جھگڑے کا سبب بنے اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کر سکو۔ (ترمذی، حدیث: 1995)

4۔ جب اولین و آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

5۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52، حدیث: 2227)

خلاصہ کلام: وعدہ خلافی اور عہد شکنی حرام اور گناہ کا کام ہے، اپنے عہد اور وعدوں کو پورا کرنا مسلمان پر شرعا واجب و لازم ہے۔

اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو وعدہ پورا کرنے والا بنائے اور وعدہ خلافی سے بچنے والا بنائے۔ آمین