کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو شرعا اور عرفا دونوں لحاظ سے ہی برا سمجھا جاتا ہے ان کاموں میں سے ہی ایک وعدہ خلافی بھی ہے کہ عرفاً تو اس کو برا جانا ہی جاتا ہے لوگ وعدہ خلافی کرنے والے شخص کو ناپسند کرتے ہیں مگر شرعا بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے اس پر مشتمل چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

1۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2۔ چار خصلتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی خصلت ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے، جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب لڑائی کرے تو بد زبانی کا مظاہرہ کرے۔ (بخاری، 1/25، حدیث: 34)

3۔ جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

4۔ قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (صراط الجنان، 5/127)

5۔ شب معراج میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ آپ کی امت کے وہ وعظ کرنے والے ہیں جو وہ باتیں کہتے تھے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے۔ (صراط الجنان، 10/35)

6۔ قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔ (صراط الجنان، 5/127)