آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں وعدہ خلافی عام ہو چکی ہے یہ بات ہم میں سے بہت سے لوگوں کا معمول بن چکی ہے کہ کسی کو ٹالنا ہو تو ہم فورا وعدہ کر لیتے ہیں تاکہ اس شخص سے جا ن چھوٹ جائے، اگر ایسا ہے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے اور وہ وعدہ خلافی ہمارے لیے وبالِ جان بن سکتی ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ وعدہ پورا نہ کر سکنے سے ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آج ہم جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہاں جھوٹ، کینہ، بغض، حسد، جلن، منافقت اور وعدہ خلافی وغیرہ عام باتیں ہو گئی ہیں، دنیا میں ایک دوسرے کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل ہے ہمارے ہر ایک سے معاملات پیش آتے رہتے ہیں ان معاملات میں ایک دوسرے کو استقامت دینے اور دل مضبوط کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لیے ہمیں قدم قدم پر ایک دوسرے کی مدد اور یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اور یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے۔اس لیے قرآن و حدیث میں بھی وعدہ پورا کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے، قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو وعدہ پورا کرتے ہیں، فرمایا: بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۷۶) (پ 3، اٰل عمران: 76) ترجمہ: کیوں نہیں جو شخص اپنا وعدہ پورا کرے اور پرہیزگاری کرے تو اللہ پاک بھی ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔

وعدہ خلافی کی تعریف: معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا وعدہ خلافی کہلاتا ہے۔ (باطنی گناہوں کی معلومات)

آیت مبارکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔وعدہ کی پاسداری ایمان کے کمال کی نشانی اور وعدہ خلافی منافقوں کا شیوہ ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، ص 15)

مذمت میں احادیث:

1۔ جو کسی سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 4/505، حدیث: 7300)

2۔ جب اولین و آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735)

وعدہ خلافی کے متعلق احکام: پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور حرام کام ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34) اپنے عہد کو پورا کرنا مستحب ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا خطبہ کم دیا ہوگا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ جس آدمی میں امانت نہیں اس کا ایمان بھی کچھ نہیں اور جس میں ایفائے عہد نہیں اس کا دین بھی کچھ نہیں۔ (شعب الایمان)

پیارے مصطفیٰ ﷺ جب کسی سے وعدہ فرماتے تو لفظ عسیٰ (یعنی امید ہے) فرماتے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب بھی وعدہ کرتے تو ان شاء اللہ فرماتے اور یہی کہنا زیادہ مناسب ہے۔ (احیاء العلوم، 3/404) معلوم ہوا کہ جب کسی سے وعدہ کیا جائے تو اسے ضرور پورا کیا جائے خواہ رب سے کیا ہو یا عام انسانوں سے یا اپنے پیر سے یا بوقت نکاح بیوی سے یا کسی اور عزیز سے۔

اللہ پاک ہمیں ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام ظاہری اور باطنی گناہوں سے محفوظ فرمائے۔آمین