حضرت انس رضی اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ 

اس حدیث کی شرح میں مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امانت داری اور پابندی وعدہ کے بغیر ایمان اور دین کامل نہیں، امانت میں مال و زر لوگوں کی عزت و آبرو ریزی حتی کہ عورت کی اپنی عفت سب داخل ہیں، بلکہ سارے اعمال صالحہ بھی اللہ پاک کی امانتیں ہیں۔ حضور سے عشق و محبّت حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت ہے، رب فرماتا ہے۔ " اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ "الخ۔ عہد میں میثاق کے دن رب سے عہد، بیعت کے وقت شیخ سے عہد، نکاح کے وقت خاوند یا بیوی سے عہد، جو جائز وعدہ دوست سے کیا جائے یہ سب داخل ہیں۔ ان سب کا پورا کرنا لازم اور ناجائز وعدہ توڑنا ضروری اگر کسی سے زنا، چوری، حرام خوری یا کفر کا وعدہ کیا تو اسے ہرگز پورا نہ کرے کہ یہ رب کے عہد کے مقابلے میں ہے۔ الله رسول سے وعدہ کیا ہے ان سے بچنے کا، اسے پورا کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، 1/45، حدیث: 35،نعیمی کتب خانہ گجرات )

ایک اور حدیث پاک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے ،جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں منافق کی تین ایسی علامتیں بیان کی گئیں جن کا تعلق قول عمل نیت میں سے ایک ایک سے ہے، کذب فسادِ قول ہے ،خیانت فسادِ عمل ہے اور وعدہ خلافی فسادِ نیت ہے۔جو منافق ہوگا اس میں یہ تین باتیں ضرور ہوں گی لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس میں یہ تین باتیں پائی جائیں وہ منافق بھی ضرور ہو جیسے کفار ومشرکین اس لیے اگر کسی مسلمان میں یہ باتیں پائی جائیں اسے منافق کہنا جائز نہیں ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نفاق کی علامت ہے ۔ (نزہۃ القاری،1/348)

علامہ قرطبی نے فرمایا کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں : ایک نفاق فی الاعتقاد کہ جو زبان سے اپنے آپ کو مسلمان کہے اور دل میں کفر رکھے۔ دوسر سے نفاق فی العمل، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کام کرے جو مسلمانوں کے شایان شان نہ ہو منافقین کے کرتوت ہوں جیسے یہ تینوں عیوب، جو مسلمان اس کا مر تکب ہو، وہ نفاق فی العمل کا مرتکب ہے۔ (نزھۃالقاری شرح صحیح البخاری، 1/348،حدیث: 31، فرید بک سٹال لاہور)

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگِ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں اور میرے والد حسیل رضی اللہ عنہ (جو یمان کے لقب سے معروف تھے) دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑلیا اور کہا : تم محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جانے کا ارادہ کر رہے ہو؟ ہم نے کہا : ان کے پاس جانے کا ارادہ نہیں کرتے، ہم تو صرف مدینہ منورہ جانے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کر یں گے ، ہم نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم دونوں لوٹ جاؤ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ پاک سے مدد مانگیں گے۔ (مسلم، 5/481، حدیث: 4636)

تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہمیشہ ایفائے عہد کریں اور عہد شکنی سے بچتے رہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں وعدہ خلافی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیشہ اپنے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم